The Identity Code (3)
دی آئیڈنٹٹی کوڈ (3)

میرے ایک دوست کراچی کی مشہور سرکاری یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ خود شناسی کے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ تو کہنے لگے کہ میں آج بھی یہ بات نہیں جانتا کہ میرا پیدائشی ٹیلنٹ کیا ہے۔ میری پروفیشنل سٹرینتھ اور خامیاں کون کون سی ہیں۔ ہماری گفتگو سائمن سینک کی مشہور کتاب "فائنڈ یور وائی" کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ میں نے اس کتاب کی فائنڈنگ کے حوالے سے دو کالم بھی لکھے ہیں۔ آپ سرچ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
اب محترم دوستو! آپ اندازہ کریں کہ ایک یونیورسٹی کا پروفیسر اپنی شخصیت کے بارے میں نہیں جانتا تو ایک عام شخص کا کیا حال ہوگا۔ اکبر الہ آبادی نے اس حقیقت کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔۔
ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے
اپنی ذات کو نہ پہچاننے والا انسان اس سے آگے نہیں سوچ سکتا آپ کے ڈیوائن کوڈ کے اندر آپ کی شخصیت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کا ڈیوائن کوڈ ایک سے نو کے درمیان کوئی بھی نمبر ہو سکتا ہے۔ فرض کیا آپ کا کوڈ دو ہے جیسے ہی آپ کو اپنے ڈیوائن کوڈ کا پتہ چلا آپ کی اپنی شخصیت آپ کے سامنے کھلتی چلی گئی۔ آپ کو پتہ چلا کہ آپ اپنی زندگی میں دوسروں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
حساس طبیعت ہے بچپن سے ہی صحت کے مسائل رہتے ہیں۔ یعنی تگڑا ڈیل ڈول والا جسم آپ کا نہیں ہے۔ بہت زیادہ کریئیٹو آئیڈیاز آپ کے دماغ میں آتے ہیں لیکن جب ایکشن لینے کا وقت آئے تو آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لوگوں کے کام آنا آپ کو پسند ہے مروت کا یہ عالم ہے کہ قرض دے کر واپس مانگنے کا حوصلہ آپ میں نہیں ہے صحت کے مسائل کی وجہ سے آپ ہارڈ ورک نہیں کر سکتے۔ ضرورت سے زیادہ حساس اور بزدلی کی حد تک امن پسند۔
خوبیوں کی بات کریں تو تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں فیملی کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔ روحانی طبیعت کی وجہ سے خلوت کو پسند کرتے ہیں۔ مہمان نواز ہوتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ کاروباری صلاحیتیں رکھتے ہیں مشکل سے دوست بناتے ہیں۔ اسی طرح عشق بھی مشکل سے ہی کرتے ہیں۔ لیکن وفادار ہوتے ہیں۔ اچھے شوہر اور اچھی بیوی ثابت ہوتی ہیں۔ دو نمبر کے ڈیوائن کوڈ والے مشہور لوگوں میں صدر عارف علوی، احمد ندیم قاسمی، مہاتما گاندھی برائن لارا، سعادت حسن منٹو، بشریٰ رحمٰن اور دیگر لوگ شامل ہیں۔
پاکستان میں مڈل کلاس لوگوں کی اکثریت اسی ڈیوائن کوڈ پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس کو تفصیل سے بیان کیا۔ زیادہ تر کالم پڑھنے والے لوگ بھی اسی ڈیوائن کوڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اندازہ کریں کہ اگر آپ کو اپنی کالج لائف میں پروفیشنل لائف میں اس بات کا ادراک ہوتا تو آپ اپنی زندگی میں کتنی تبدیلیاں لے آتے۔
فزیکل فٹنس کے لیے مارشل آرٹس کا انتخاب کرتے جم اور جوگنگ کو معمول بناتے حد سے بڑھتی ہوئی مروت کو، اپنا دیا ہوا پیسہ واپس مانگنے کا حوصلہ نہیں، اس سے باہر نکلنے کے لیے پریکٹیکل لوگوں کے ساتھ وقت گزاراتے۔ حد سے بڑھتی حساسیت خوشیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھا جائے اور اپنی کھال کو موٹا کیا جائے۔ نوشی گیلانی یاد آگئیں۔۔
موم کا بدن لے کر دھوپ میں نکل آنا
اور پھر پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
پوری زندگی دوسروں کے لیے گزار دی۔ اس حماقت سے نکلا جائے۔ ورکنگ ویمن کی بات کی جائے تو اپنے ذاتی مشاہدے سے آپ کو بتاتا ہوں کہ ان کے والدین خود ان کی شادی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ان کے کمائے ہوئے پیسوں سے چھوٹی بہنوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ بھائی بھی ان کی کمائے ہوئے پیسے خرچ کرتے ہیں اور جب ان کی عمر نکل جاتی ہے تو پھر ان کی شادی کی بات ہونا شروع ہوتی ہے۔ معاشرے کا المیہ ہے۔ یہی حال پردیس میں فیملی کی خاطر اپنی زندگی کے قیمتی سال لگانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وطن واپسی پر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا کوئی شخص ان کے کنٹریبیوشن کو تسلیم نہیں کرتا۔
جی ہاں میں جانتا ہوں آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔ اس ڈیوائن کوڈ کی وجہ سے آپ نے اپنی لائف کا جو سخت پیٹرن منتخب کیا۔ اس کی وجہ سے اندرونی پچھتاوے کا شکار ہیں۔ لیکن آج کی تاریخ میں بھی یہ آگاہی آپ کی آنے والی زندگی کو آسان بنا دے گی۔
ڈیوائن کوڈ کے ساتھ نام کے اثرات ہماری زندگی کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ مشہور سکالر پروفیسر عبداللہ بھٹی کی کتاب سے یہ سٹوری آپ کے لیے منتخب کی ہے۔
"میرے سامنے ایک بہت خوبصورت بیورو کریٹ لڑکی سوالیہ نشان بنی بیٹھی تھی۔ عمر تیس سال سے زیادہ ہوگئی تھی۔ خوبصورت پڑھی لکھی اچھا خاندان سی ایس ایس کرنے کے باوجود ماں باپ اور وہ خود بھی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان تھی۔ اس کا حسن چونکا دینے والا تھا جو بھی اس آفیسر کو دیکھتا رشک سے دیکھتا کہ یہ حسین تحفہ کس کا مقدر ہوگا لیکن ماں باپ کی شدید کوششوں کے باوجود بھی ابھی تک یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے اُلجھتا ہی جارہا تھا۔
یہاں بھی وہی الزام یا شک کہ تایا اپنے بیٹے سے شادی کرنا چاہتے تھے جو کم پڑھا لکھا تھا۔ ہم نے انکار کر دیا۔ انہوں نے رشتے باندھ دیئے ہیں۔ اب بندش کی وجہ سے پوری کوششوں کے باوجو د رشتہ نہیں ہورہا۔ لڑکی نے میری کتاب "اسرار روحانیت" پڑھی تھی، اُس سے متاثر ہو کر آئی اور کہنے لگی "کیا میرا نام ٹھیک ہے"۔ مجھے پہلے بھی کسی نے کہا تھا کہ میرا نام ٹھیک نہیں ہے۔ ماں باپ بضِد تھے کہ تایا تائی نے جادو کرایا ہے۔ جب میں نے چیک کیا تو نام کا مسئلہ سامنے آیا۔ لڑکی پہلے ہی اس بات کی قائل تھی۔ نام کے ساتھ تخلص لگایا جو جلد ہی رنگ لایا۔ شادی ہوئی، آج وہ کامیاب آفیسر ایک پر مسرت شادی شدہ زندگی گزار رہی ہے"۔
اسی طریقے سے ایک نمبر کا ڈیوائن کوڈ رکھنے والے شاندار شخص ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لیڈر اور حکمران اسی نمبر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے کالم میں ہم نےعثمان بزدار کی بات کی۔ چونکہ حکمرانی طبیعت میں ہوتی ہے۔ اس لیے بیوی کی پوچھ گچھ، جاسوسی سے بہت چڑتے ہیں۔ گھر میں بھی حکمران رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ازدواجی زندگی خراب کر بیٹھتے ہیں۔ اعلی عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے کام کی زیادتی کی بدولت ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس نمبر کے حاصل نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ لازمی سی ایس ایس کے ایگزام میں اپلائی کریں۔ چونکہ بااصول ہوتے ہیں اس لیے دوست کی بجائے دشمن زیادہ پیدا کرتے ہیں۔
ان کو یہ مینجمنٹ پرنسپل اپلائی کرنا چاہیے۔
"جنگ ایک ایسا تھپڑ ہوتا ہے، جس کی اصل قوت اس کو نہ مارنے میں ہے۔
طاقت، جب تک آزمائی نہ جائے، طاقت رہتی ہے۔ مگر تھپڑ جب ماردیا جائے تو وہ اپنی طاقت کھو دیتا ہے۔ یہی ڈیٹرنس (دشمن کو جارحیت سے باز رکھنے کی حکمت عملی) کا پہلا اور آخری اصول ہے ایک مضبوط رہنما، مینیجر کبھی لاٹھی نہیں گھماتا جب تک کہ ضرب یقینی اور کاری نہ ہو"۔
ایک نمبر کا ڈیوائن کوڈ رکھنے والوں میں شاہد آفریدی، مریم نواز، لیاقت علی خان، ابن صفی، سکندر اعظم، بل گیٹس سرشاہ نواز بھٹو، بانو قدسیہ اور دیگر شامل ہیں۔
اسی طریقے سے تین سے نو نمبر رکھنے والوں کی شخصیت سامنے آتی ہے ان کی ڈگری آف لک ہم معلوم کر سکتے ہیں۔ زندگی کے کون سے فیز میں کس قسم کا لائف اسٹائل ان کے لیے بیسٹ ہے۔ اللہ تعالی کے ناموں میں سے کون سی تسبیح انہیں منتخب کرنی چاہیے۔ جو ان کی ڈگری اف لک کو تبدیل کر سکے۔ اپنی ذات کو جاننے کے بارے میں پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی دو روزہ آن لائن ورکشاپ میں کروا رہا ہوں۔ جو کل ہفتے کے دن سے شروع ہوگی۔
آپ میرے واٹس ایپ نمبر 03009273773 پر رابطہ کرکے ورکشاپ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اور آخر میں دنیا بھر کی دانش سے کچھ انمول چیزیں۔
"اپنی ذات سے بے خبر شخص، دنیا میں سب سے زیادہ محروم ہوتا ہے"۔
امام غزالیؒ: "علم وہ نہیں جو کتابوں میں ہو، علم وہ ہے جو تمہیں تم تک لے جائے"۔
مولانا روم: "ہم اپنی زندگی کے بہت سے سوالوں کے جوابات صرف اس وقت پاتے ہیں جب ہم خود کو پڑھنا سیکھتے ہیں"۔
ولیم شیکسپیئر: "خدا نے تمہیں یونہی نہیں بھیجا، تمہارے اندر کوئی خاص تحفہ ہے بس اُسے ڈھونڈنے کا وقت آ گیا ہے"۔
ٹونی رابنز: اپنے آپ کو جاننے کا سفر سب سے اہم اور سب سے مشکل سفر ہے، مگر یہی کامیابی کی کنجی ہے"۔
کارل یونگ: "جب انسان اپنی حقیقت کو جان لیتا ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے جھکا نہیں سکتی"۔
علامہ اقبال کی فکر: پہچان اگر اپنی منزل کی ہے، تو پہلا قدم اپنی ذات کی پہچان سے اٹھتا ہے۔ آئیے! اپنے ڈی این اے سے پہلے، اپنے ڈیوائن کوڈ کو سمجھیں۔