Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Taqdeer Aur Husn e Tadbeer

Taqdeer Aur Husn e Tadbeer

تقدیر اور حسنِ تدبیر

سینکڑوں سال پرانی بات ہے کسی شہر میں ایک بڑا امیر کبیر تھا۔ اس کے مکان پر ایک بزرگ رہا کرتے تھے۔ امیر کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس بزرگ نے فرشتہ تقدیر سے اس لڑکے کا مقدر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک گھوڑا ہمیشہ اس کے تھان پر رہا کرے گا۔ پھر اس امیر کے گھر دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ چڑی مار ہوگا۔ پھر اس کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا حال منکشف ہوا کہ یہ بیسوا ہوگی۔ بازار میں بیٹھے گی اور ہر شب ایک مرد اس کے پاس رہا کرے گا۔ وہ فقیر وہاں سے چلا گیا۔

ایک مدت کے بعد اس شہر میں آیا اور اس امیر کا حال دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ امیر کا سب کارخانہ درہم برہم ہوگیا ہے۔ ایک لڑکا تو سواروں میں پانچ روپیہ ماہوار کا نوکر ہے۔ دوسرا لڑکا چڑی مار کا پیشہ کرتا ہے اور اس کی لڑکی بازار میں بیٹھ گئی ہے۔

وہ فقیر یہ حال سن کر بڑے لڑکے کے پاس گیا۔ اگرچہ خود محتاج تھا مگر فقیر کی خدمت نان خشک سے کرتا رہا۔ چند روز کے بعد فقیر نے ہدایت کی کہ تو نوکری چھوڑ دے اور گھوڑا اپنا بیچ ڈال۔ اس کو طرح طرح کے خیال پیدا ہوئے لیکن فقیر کا معتقد ہوگیا تھا۔ ایسا ہی کیا۔ گھوڑا اچھے داموں کو بکا۔ اگلے دن با اجازت درویش ایک کم قیمت ٹٹو خریدا اور بیچ ڈالا۔ یہی کام کرتا رہا۔ چند روز میں مالا مال ہوگیا۔ فقیر نے کہا بس تم یہی کام کرو۔ تمہارا تھان گھوڑے سے خالی نہ رہے گا۔ روز خریدو اور بیچو۔ اب ہم جاتے ہیں۔

پھر دوسرے لڑکے یعنی چڑی مار کے گھر گیا۔ اس کی کیفیت دریافت کی اور کہا کہ جب شکار کے لیے جاؤ، ہم کو ساتھ لے چلو۔ دوسرے روز دونوں جنگل میں پہنچے اور جال لگا دیا۔ فقیر نے کہا کہ جب تک شاہ باز تیرے جال میں نہ آئے کھینچیو مت۔ وہ بولا کہ حضرت بھلا میری تقدیر ایسی کہاں۔ دو آنے روز بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔ فقیر نے سمجھایا، خیر تو دیکھ تو سہی۔ غرض بہت سے جانور آئے اور نکل گئے۔ وہ چپ بیٹھا رہا۔ آخر شام کے وقت ایک شہباز جال میں آہی پھنسا۔ چڑی مار نہایت خوش ہوا اور 100 روپیہ کو وہ جانور بیچا۔ فقیر نے کہا یہ بات میری یاد رکھ "جب تک شہباز ہی تیرے جال میں نہ پھنسے" دوسرے جانور کو نہ پکڑنا۔ چند روز میں وہ بھی اس طریقہ سے خوش حال اور دولت مند ہوگیا۔

اس کے بعد وہ فقیر بیسوا عورت کے پاس گیا اور اسے کہا کہ آج یہ کام کر کہ جب تک کوئی 100 روپیہ ایک شب کے تجھ کو نہ دے، اس کے پاس مت جا۔ وہ بولی میاں صاحب میری دو آنہ کی اوقات "چھوٹا منہ بڑی بات" بھلا مجھ کو 100 روپیہ والا کیوں پوچھے گا۔ فقیر نے کہا کہ خیر اس کا تجربہ کر دیکھ۔ اس نے تعمیل حکم کی اور جو خواہش مند آیا اسے 100 روپیہ مانگے۔ لوگوں نے کہا کہ تیری عقل ماری گئی ہے۔ آخر آدھی رات کے قریب کوئی امیر آنکھوں کا اندھا گانٹھ کاپور آہی پھنسا۔

چند روز میں وہ عورت بھی مالدار ہوگئی۔ فقیر نے وصیت کی کہ 100 روپیہ سے کم قبول نہ کیا کر۔ تجھ کو کوئی نہ کوئی مل ہی جایا کرے گا۔ وہ بولی کہ آپ تو بزرگ آدمی ہیں کچھ ایسی ہمت اور دعا کیوں نہیں فرماتے کہ میں ان فعال شنیعہ کی علت سے پاک ہو جاؤں۔ انہوں نے جواب دیا کہ سنو صاحب ہم تقدیر شکن نہیں ہیں۔ یہ تو جو کچھ ہو رہا ہے، مٹ نہیں سکتا۔ اگر خدا کی طرف توجہ ہے تو اسی حال میں وہ بھی سہی۔ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے۔

یہ کہانی سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کی مشہور زمانہ کتاب "تذکرہ غوثیہ" سے منتخب کی گئی۔

اس میں جو پیغام پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ تقدیر پر تو ہمارا زور نہیں لیکن حسن تدبیر سے ہم یقیناً اپنی قسمت تبدیل کر سکتے ہیں کام کرنے کے نئے انداز اور کامیاب لوگوں کی صحبت، ہماری کامیابی کی ضامن ہیں۔

مثال کے طور پر آپ ایک ٹیچر ہیں، نرس ہیں، مالی ہیں، اکاؤنٹنٹ کا کام جانتے ہیں یہ آپ کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے اب اس کام کو آپ کس انداز میں کرتے ہیں اور اس سے کتنے پیسے کماتے ہیں یہ آپ کے ہاتھ میں ہے آن لائن کا زمانہ ہے اپنے دماغ کو استعمال کریں اور اپنی شعبے میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو نیکسٹ لیول پر لے کر جائیں۔

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq