Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Suraj Ke Jaise Log

Suraj Ke Jaise Log

سورج کے جیسے لوگ

پرائمری سکول کے سنہری دن یاد آگئے چھوٹا سا سکول، سادہ زمانہ، ہماری کلاس میں ٹوٹل 13 لڑکے پڑھتے تھے۔ وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کے لیے میرا انتخاب ہوا شہر میں موجود بڑے ہائی سکول میں مجھے پیپر دینے کے لیے جانا تھا میرے بڑے بھائی محمد طارق مرحوم اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے مجھے اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھا کر صبح سویرے ہائی سکول چھوڑ کر آئے۔

سکول کی وسعت اور سینکڑوں بچوں کی موجودگی، میں سما ہوا کمرہ امتحان میں پہنچا پہلا پیپر میتھ حساب کا تھا۔ جس کا رزلٹ وہیں حال میں سنایا گیا اور سینکڑوں بچوں میں سے اس پیپر میں، میں نے ٹاپ کیا ایک یادگار لمحہ۔ باہر نکل کر سکول کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں پہنچتا ہوں تو ایک بوڑھا شخص میرے انتظار میں وہاں موجود ہوتا ہے۔

محترم دوستو! وہ شخص میرا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں، بلکہ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر بابا خلیل تھے۔ اپنی پرانی سی سائیکل پر، اپنے صرف ایک سٹوڈنٹ کا انتظار کرتے ہوئے گھنٹوں سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر میری کامیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے اور وہاں پر وہ اکیلے نہیں تھے دور دراز کے اسکولوں سے امتحان دینے کے لیے آئے ہوئے سٹوڈنٹس کے ساتھ ان کے کلاس انچارج یا ہیڈ ماسٹر ان کے ساتھ موجود تھے۔

جی ہاں کوئی فلمی کہانی، نہیں استاد ایک روحانی باپ کی صورت میں وہاں موجود تھے ایک سورج کی مانند جن کی کرنیں پوری دنیا کو منور کر رہی ہیں۔

بابا خلیل صاحب کو اسکول کے تمام سالوں میں سائیکل پر ہی گراں تے ہوئے دیکھا۔ کہتے تھے جب میرے بچوں کے بورڈ کے پیپرز آتے ہیں تو مجھے رات کو نیند نہیں آتی وہ محبت جو ایک باپ کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے سادہ طرز زندگی اور بغیر لالچ کے ہر روز ہمارے مستقبل کی تعمیر کے لیے فکر مند اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے پودے، تناور درختوں کی صورت میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ بقول غالب:

مقدور ہوں تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایا کیا کیے

ترجمہ اگر میں خوش قسمت یا اہل اقتدار ہوتا تو میں زمین سے پوچھتا کہ کنجوس تو نے وہ بیش بہا قیمتی خزانوں کا کیا کیا؟

آج کا کالم لکھتے ہوئے ان کا چہرہ میری انکھوں کے سامنے ہے اور دل شکر گزاری سے بھرا ہوا ہے پرائمری سکول سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالونی ہائی سکول میں داخلہ لیا چھٹی سے اٹھویں جماعت تک ہمارے کلاس انچارج خادم حسین صاحب تھے میرے فیورٹ استاد۔ اپنے خوابوں میں بھی اپنے سٹوڈنٹس کے بارے میں سوچنے والے کلاس کا ڈسپلن، پروقار انداز۔

اس عظیم ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ پوری دنیا میں بڑی پوزیشنز پر کام کر رہے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک گوہر نایاب۔ میٹرک میں ہمارے انچارج طفیل صاحب فوجی انداز اور پرانا موٹر سائیکل جن کی پہچان تھا کرکٹ کے شوقین ظفر صاحب جن کا بیٹا ہمارا کلاس فیلو تھا دوران تعلیم ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا انگلش زبان کے ماہر، ہاکی کے خوبصورت کھلاڑی ظہیر الدین بابر صاحب، گویا۔۔

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا

جو سنا افسانہ تھا

اس زمانے میں ویڈیو گیمز اور سنوکر کلب کا نیا نیا رواج پڑا تھا سکول سے کچھ لڑکے بھاگ کر اپنا وقت ان جگہوں پر ضائع کرتے تھے اور ہمارے پی ٹی کے استاد زاہد عباس صاحب ان کے پیچھے پیچھے ان کلبز میں پہنچ جاتے تھے۔ استاد کی عزت کا یہ معیار تھا کہ وہ لمبے تڑنگے لڑکے اپنے استاد کو دیکھ کر سر جھکاتے، سزا برداشت کرتے اور سکول واپس آتے اس مادر علمی کے طلبہ پڑھائی کے علاوہ سپورٹس اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پورے ڈویژن میں اپنی الگ پہچان رکھتے۔

گورنمنٹ کالونی سکول کا اسٹوڈنٹ دور سے ہی پہچانا جاتا

اندازہ مت لگائیے بس بیٹھ جائیے

خوشبو بتائے گی پیس دیوار کون ہے

ان میں سے بیشتر اساتذہ اب اس دنیا میں نہیں رہے میں نام لے کر ان کے لیے دعا کرتا ہوں یہ انہی کی محنتوں کا اعجاز ہے کہ آج میں 20 سے زیادہ ممالک میں مائنڈ سائنسز کی ٹریننگ کرواتا ہوں۔

آج اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ سٹوڈنٹس ان کی عزت نہیں کرتے ویسے استاد بھی تو آج نہیں ہیں اپنے اکلوتے سٹوڈنٹ کے لیے کون سائیکل چلا کر گھنٹوں گراؤنڈ میں بیٹھ کر دعا کرتے ہوئے وقت گزار سکتا ہے۔ آج 2024 میں شاید سگا باپ بھی ایسا نہ کر سکے یہ وہ سورج تھے جنہوں نے اپنی میراث میں وہ ہزاروں ستارے چھوڑے جو اس ملک کے تابناک مستقبل کے ضامن ہیں اللہ تعالی ان کی قبروں کو اپنے نور سے منور کرے۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئی

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئی

(غالب)

اور بقول حفیظ ہوشیار پوری

سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہو گئے

بار امانت غم ہستی اتار کے

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan