Spain Ka Pull, Pakistani Nojawan Aur Gori Maim (1)
سپین کا پل، پاکستانی نوجوان اور گوری میم (1)
یہ مراکش میں پاکستانی سفارت خانے کا منظر ہے۔ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کا ایک گروپ گرفتار ہوتا ہے اور اسے مقامی سکیورٹی کے لوگ پاکستانی ایمبیسی میں لے کر آتے ہیں۔ سینئر سفارت کار حسن حبیب ایک شخص سے بات چیت کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ چار جماعتیں پاس ہے۔ انگلش زبان نہیں جانتا۔ کسی قسم کا ہنر بھی اس کے پاس نہیں ہے تو اس سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کامیابی سے مراکش کی سرحد کراس کرکے سپین میں پہنچ بھی جاتے تو پھر وہاں جا کر کیا کرتے؟
تمہیں سپینش تو دور کی بات انگریزی زبان بھی نہیں آتی۔ کوئی ہنر بھی تمہارے پاس نہیں ہے۔ تو آخر کیوں روپے خرچ کرکے اپنی جان کو رسک میں ڈال کر یہ سب کچھ کر رہے ہو۔
پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ آگئی۔ اس نے ایسی نظروں سے سینئر سفارت کار کی طرف دیکھا جیسے ایک بہت زیادہ علم رکھنے والا انسان ایک کم علم شخص کی طرف دیکھتا ہے۔ گہری سانس بھری اور بتایا سر ہم لوگ اگر سپین کا بارڈر کراس کر لیتے اور اپنے فکسڈ مقام پر پہنچ جاتے تو اس کے بعد ہم نے ناک کی سیدھ میں ایک کلومیٹر آگے جانا تھا اور پھر وہاں پر ایک پل ہے میں اس پل پر جا کر کھڑا ہو جاتا اور ہمیں ایجنٹ نے بتایا ہے کہ پاکستانی نوجوان سپینش لڑکیوں میں انتہائی مقبول ہیں۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے اس نے کہا بمشکل ایک گھنٹے کے بعد ایک انتہائی خوبصورت گوری میم ایک بڑی سی گاڑی میں آتی مجھے دیکھ کر خوشی سے اپنی گاڑی میں بٹھا لیتی، اپنے بڑے سے گھر میں لے جاتی ہم دونوں شادی کر لیتے اس کا سارا بزنس میں چلاتا اور بقیہ زندگی آسانی اور آسائش کے ساتھ گزارتا۔
پاکستان کے سینئر سفارت کار حسن حبیب کے ساتھ پچھلے دنوں کچھ گھنٹے گزارنے کا موقع ملا اور ان کی بات چیت سے کچھ انمول یادیں اکٹھی کیں۔ ان کی زبان سے نوجوان کی گفتگو سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میں نے پوچھا پھر آپ نے اسے کیا جواب دیا۔ انہوں نے کہا غصے اور افسوس کی حالت میں، میں نے اس پاکستانی نوجوان سے کہا آپ اپنا حلیہ دیکھو، تعلیم دیکھو، کوئی گوری میم تو دور کی بات پاکستان میں بھی آپ کا ڈھنگ کا رشتہ مشکل سے ہوگا۔
دلچسپ بات انہوں نے بتائی کہ غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کرنے والے ہر نوجوان کے خوابوں میں یہی پل ہوتا ہے۔ صرف سپین کا پل نہیں، یہی پل اٹلی کے بارڈر، جرمنی کے بارڈر اور امریکہ کے بارڈر پر ان کے خوابوں کا مرکز ہوتا ہے۔
ایجنٹس کے کہے کو سچ جانتے ہوئے ایک سراب کے تعاقب میں اپنی جمع پونجی اور زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
سادگی میں جان دے بیٹھے ہزاروں کوہ کن
آدمی پوچھے تو ایسی سادگی بھی جرم ہے
حسن حبیب صاحب سے دو گھنٹوں کا وقت لیا تھا۔ لیکن پانچ چھ گھنٹے ایسے گزرے کہ وقت کو گویا پر لگ گئے ہوں۔
حسن حبیب کے والد گرامی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے اور والدہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ ان کے نانا انگریز دور میں لکھنؤ میں سول سرجن تھے۔ والدین کا عظیم علمی ورثے سے تعلق ان کی اونچی اٹھان اور ڈسپلنڈ لائف کا بڑا سورس بنا۔ ان کے والد صاحب سندھ لوکل گورنمنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ اصولوں کے پابند اور ہمت نہ ہارنے والے انسان تھے۔
حسن حبیب صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے ساری زندگی اپنے والد صاحب کو کسی کی برائی کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ والد صاحب کے مسلسل ٹرانسفر کی وجہ سے پوری فیملی سندھ کے مختلف شہروں میں گھومتی رہی سکھر اور شہداد پور میں گزرا ہوا سکول کا یادگار وقت ان کی یاداشت میں گردش کرتا رہتا ہے۔
حسن حبیب نے چائنا، ایران، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، مراکش اور شمالی کوریا میں مختلف حیثیتوں میں پاکستانی سفارت خانوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ اپنی بچپن کی یادوں کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ڈرائنگ کے استاد کے چہرے پر نور سا جھلکتا تھا۔ لمبی سفید داڑھی اور خوبصورت آواز میں اذان کہتے تھے ایسی دل کو چھو لینے والی اذان کی آواز پوری دنیا میں اور کہیں نہیں سنی۔
میں نے پوچھا کیا بچپن میں والدین کو یقین تھا کہ ان کا بیٹا ایک بڑا مقام حاصل کرے گا۔ پاکستان کی خدمت کرے گا۔ جواب دیا کہ میری والدہ اس بارے میں بڑے خواب دیکھتی تھیں اور یہ ان کا خواب تھا کہ میرا ایک بیٹا سٹیٹ کو سرو کرے اور انہی کے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے میں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا۔ ان کی والدہ کا انتقال 1982 میں ہوگیا اس کے بعد انہوں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور فارن سروسز میں اپنے سفر کا آغاز بطور تھرڈ سیکرٹری چائنا میں پوسٹنگ کے ساتھ شروع کیا۔
فیملی کے ساتھ کمٹڈ ہونے کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میری عمر 30 سال سے زیادہ ہوگئی تھی۔ والد صاحب کی طرف سے شادی کا پریشر تھا۔ میری پوسٹنگ چائنا میں تھی اور میں مختلف حیلے بہانوں سے ان کو ٹالتا رہتا تھا۔ ایک دن ان کے والد صاحب کا فون آتا ہے کہ حسن میں نے آپ کی شادی ایک معزز گھرانے میں طے کر دی ہے۔ آپ اپنی چھٹیوں کا شیڈول بنائیں تاکہ بات آگے بڑھائی جائے۔ انہوں نے پوچھا کیا میرے پاس ہاں یا ناں کہنے کا آپشن باقی ہے؟ والد صاحب نے جواب دیا میں رشتہ طے کر چکا ہوں۔
سر جھکا کر حسن حبیب پاکستان آئے اور لڑکی کو دیکھے بغیر شادی کے لیے تیار ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ خاتون ان کے لیے اللہ تعالی کا خاص تحفہ ثابت ہوئیں اور ان کی زندگی کی کامیابیوں اور خوشیوں میں ان کی رفیقہ حیات کا خاص رول ہے۔ اللہ تعالی نے اس جوڑے کو تین بیٹوں کی نعمت سے نوازہ۔
پوچھا کیا کامیابی کے لئے کوئی خاص وٹامن چاہیے یا آج بھی کوئی پاکستانی چند اصولوں کو اپنا کر آپ کی طرح کوئی بڑا مقام حاصل کر سکتا ہے؟
انہوں نے کہا ثاقب صاحب آپ مائنڈ سائنسز کے آدمی ہیں اور اصولوں پر زندگی گزارنے سے حاصل ہوئی انرجی کے میکنزم کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کامیابی کا فلسفہ بالکل سادہ ہے۔ والد صاحب سے ہم نے غیبت اور خواہ مخواہ کی باتیں نہ کرنے کا فن سیکھا۔ والدہ محترمہ نے ہمیں بڑے خواب دیکھنا سکھائے۔ اپنے شہداد پور کے ہائی سکول کے اساتذہ کے بارے میں بتایا کہ اس سکول سے فارغ التحصیل طلبا پوری دنیا میں پاکستان کو سرو کر رہے ہیں۔ اپنے اساتذہ سے انہوں نے ڈسپلن، کردار سازی اور ایمانداری کے عظیم اصول سیکھے اور یہی پرنسپل ساری زندگی ان کا طرہ امتیاز رہے۔
زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ مراکش کے سفارت خانے میں موجود نوجوان کی کہانی، لاکھوں پاکستانیوں کی کہانی ہے۔ ان کے خواب و خیال میں سپین کا وہ پل کسی بھی روپ میں موجود ہوتا ہے۔ جہاں قسمت کی دیوی ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ مائنڈ سائنسز میں ہم اس کو ہیلو سینیشن کہتے ہیں۔ آپ ایک سراب کو حقیقت جان کر اپنی زندگی اس کے حصول کے لیے تباہ کر دیتے ہیں۔
حسن حبیب نے اپنے سوئٹزر لینڈ میں گزارے ہوئے دنوں میں اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سوئس چیمبر میں پاکستانی چیپٹر کی بنیاد رکھی۔
سوئٹزر لینڈ میں گندھارا ایگزیبیشن کا انعقاد دل کو چھونے والا واقعہ ہے۔ ہم اگلے کالم میں ان واقعات پر تفصیل سے بات کریں گے۔ حسن حبیب صاحب سے ملاقات کے بعد یہ مشہور شعر یاد آگیا۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
(جاری ہے)