Sone Ke Sikkay
سونے کے سکے
الیکشن کی گہما گہمی سے باہر نکلتے ہیں اور آج کی تحریر میں کچھ ایسی سٹوریز کو انجوائے کرتے ہیں جو سونے کے سکوں کی طرح قیمتی ہیں۔
ایک بہت بڑی کمپنی ملازمت کے لیے انٹرویو لے رہی تھی۔ انٹرویو میں ایک بہت اہم سوال کچھ یوں تھا "اپ اپنی کار میں ایک طوفانی رات میں سفر کر رہے ہیں۔ آپ ایک بس سٹاپ کے پاس سے گزرتے ہیں، وہاں آپ کی نظر تین افراد پر پڑتی ہے جو وہاں بس کا انتظار کر رہے ہیں"۔
1۔ ایک بوڑھی عورت جو قریب المرگ دکھائی دیتی ہے۔
2۔ ایک ڈاکٹر جس نے ایک مرتبہ آپ کی جان بچائی تھی۔
3۔ ایک لڑکا/ لڑکی جس کے ساتھ وقت گزارنے کا ہمیشہ آپ نے خواب دیکھا ہے۔
آپ اپنی گاڑی میں صرف ایک سواری کو بٹھا سکتے ہیں۔ آپ کس کو منتخب کریں گے؟ نیز براہ کرم اپنے جواب کی وضاحت کریں۔۔ کیوں؟
یہ ایک قسم کا شخصیت کو پرکھنےکا طریقہ تھا۔
ہر متوقع جواب اپنے حق میں دلائل اور جوابات رکھتا ہے۔ مثلا آپ بوڑھی عورت کو اپنے ساتھ سوار کر سکتے ہیں کیونکہ طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے وہ مر سکتی ہے۔ اسی طرح آ پ اس کی زندگی بچا سکتے ہیں اور نیکی کما سکتے ہیں، جیسا کہ اسلامی تعلیمات میں آ تا ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا"۔
آپ ڈاکٹر کو لفٹ دے سکتے ہیں کیونکہ اس نے آپ کی زندگی بچائی تھی، آپ پر احسان کیا تھا۔ یہ اس کا احسان اتارنے کا بہترین موقع ثابت ہو سکتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر کے احسان کا بدلہ آپ مستقبل میں بھی اتار سکتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ دوبارہ آپ کو اپنی پسند اور آ ئیڈیل ہستی کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع نہ ملے۔ اس کے دل میں گھر کرنے کا یہ بہترین موقع ثابت ہو سکتا ہے۔
وہ شخص جسے درجنوں امیدواروں میں سے منتخب کیا گیا۔ اس کا جواب اتنا واضح تھا کہ اسے اس کے حق میں دلائل دینے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔
اس نے جواب دیا میں کار کی چابی ڈاکٹر کو دوں گا تاکہ وہ بوڑھی عورت کو لے کر ہسپتال چلا جائے اور اس کی زندگی بچائے اور میں اپنی محبوب بستی کے ساتھ کھڑا ہو کر بس کا انتظار کروں گا۔
بعض اوقات نہیں بلکہ اکثر اوقات دینا ہی پانا ہوتا ہے۔
***
شیخ سعدی" بوستان "میں بیان کرتے ہیں کہ چند صوفی کسی جگہ مل کر بیٹھے۔ ان میں سے ایک نے کسی کی بد گوئی شروع کر دی۔ کسی نے اس سے کہا: اے نادان کیا تو نے کبھی فرنگیوں سے جہاد کیا؟
اس نے کہا: میں نے اپنے علاقے سے تمام عمر قدم باہر نہیں نکالا۔
سچی طبیعت و تربیت والے درویش نے کہا: میں نے ایسا بدبخت کوئی نہیں دیکھا کہ کافر تو اس کی جنگ سے امن میں ہو کر بیٹھا۔ مگر مسلمان اس کی زبان کے ظلم سے نہ چھوٹا۔
برے شخص نے میری پیٹھ پیچھے میرے عیب بیان کیے اور چھپ گیا۔ وہ ساتھی اس سے برا ہے جو لایا اور بیان کیا۔ ایک شخص نے تیر چلایا اور وہ راستہ میں گر گیا۔ اس نے میرے جسم کو نہ ستایا اور مجھے تکلیف نہ دی۔ تو اسے اٹھا لایا اور میرے پہلو میں چبھو رہا ہے۔
(شیخ سعدی)
***
پوتا: دادا جان آپ کے دانت کدھر گئے؟
دادا: بیٹا بڑھاپے کی وجہ سے ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے۔
پوتا: مگر دادا جان! آپ کی زبان بھی تو بوڑھی ہے۔ زبان کی عمر بھی اتنی ہے جتنی دانتوں کی؟
دادا جان نے توقف کیا اور کہا: بیٹا دانت اپنی اکڑ اور سختی کی وجہ سے ٹوٹ گئے اور زبان اپنی نرمی کی وجہ سے آج بھی قائم ہے۔
"انسان کی راحت اس کی زبان کی حفاظت میں ہے"۔
(جلال الدین رومی)
***
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ خلیفہ منصور رؤسائے سلطنت میں سے ایک عمارہ بن حمزہ کے ساتھ دربار میں بیٹھا تھا۔ عدالت لگی ہوئی تھی۔
دفعتا ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا: میں مظلوم ہوں، مجھے انصاف چاہیے۔
خلیفہ نے دریافت کیا: تجھ پر کس نے ظلم کیا؟
اس نے کہا: آپ کے امیر عمارہ بن حمزہ نے مجھ پر ظلم کیا اور میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔
خلیفہ منصور نے اپنے امیر عمارہ بن حمزہ سے کہا: کھڑا ہو جا اور مدعی کے برابر جا کھڑا ہو، کیونکہ اس وقت تو ایک ملزم ہے۔
پھر عمارہ نے کہا: امیر المومنین اگر زمین اس کی ہے تو میں جھگڑا نہیں کرتا اور اگر میری ہے تو آج سے میں نے اسے دے ڈالی۔ مجھے فیصلے کی ضرورت نہیں، میں اس عزت اور مرتبے کو جو معاشرے میں اور امیر المومنین کے ہاں مجھے حاصل ہے زمینوں کے عوض نہیں بیچتا۔ یہ سن کر اہل دربار نے نعرہ تحسین بلند کیا۔
"کم درجہ کے آدمی سے لڑنے سے بچ۔ اس لیے کہ بعض اوقات میں نے قطرے سے سیلاب بنتے دیکھا ہے"۔
(شیخ سعدی)
یہ سٹوریز ڈاکٹر محمد عارف صدیقی کی کتاب شاہین کا جہاں اور سے منتخب کی گئیں۔