Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Secondary Game

Secondary Game

سیکنڈری گیم

کرکٹ ہاکی فٹبال اور دیگر گیمز سے ہم بخوبی واقف ہیں سکینڈری گیم کو ہم تین کیس سٹڈیز سے سمجھتے ہیں ان کہانیوں کے اندر آپ اپنے آپ کو دیکھیں گے۔

فروزن شولڈر کا مرض آج کل کافی کامن ہو چکا ہے اس میں مریض کا ایک ہاتھ صحیح طریقے سے حرکت نہیں کرتا۔ اس مرض میں مبتلا ایک شخص سے ملاقات ہوئی تقریباََ 40 سال کی عمر رکھنے والے اس بندے نے بتایا کہ وہ پچھلے پانچ ماہ سے اس مرض میں مبتلا ہے اور بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔ میں نے کہا آپ مجھے اپنا چوبیس گھنٹوں کی روٹین بتائیں اس نے کہا میں ہر روز فزیوتھراپی کروانے کے لیے اپنے گھر سے تقریباََ پندرہ کلومیٹر دور موجود ایک ہسپتال میں جاتا ہوں۔ وہاں پر موجود ڈاکٹر اور سٹاف کے ساتھ ایک گھنٹہ گزارتا ہوں ان صاحب کا نام ہم عبداللہ فرض کر لیتے ہیں۔

عبداللہ نے میرے سوالوں کے جواب میں بتایا کہ ان کی وہاں پر موجود سٹاف سے بہت اچھی گپ شپ ہوگئی ہے استقبالیہ پر موجود صاحب کی بھی تعریف کی پارکنگ بوائے کے اچھے اخلاق کے بارے میں بھی بتایا۔ میں نے کہا فزیو تھراپی کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں کہنے لگے کہ اس ہسپتال کے قریب ہی میری بڑی بہن کا گھر ہے اس لیے وہاں بھی چلا جاتا ہوں کافی پیتا ہوں بچوں سے گپ شپ لگاتا ہوں۔ ان پانچ مہینوں میں فروزن شولڈر کی تکلیف میں مبتلا بہت سے لوگوں سے عبداللہ کی دوستی بھی ہوگئی اس بارے میں لٹریچر بھی پڑھا اور دوستوں یاروں کی محفل میں وہ اس مرض کے بارے میں سیر حاصل گفتگو بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن شفا ان سے دور تھی۔

عبداللہ کی سٹوری کو یہاں پر روکتے ہیں میں اپنی کلائنٹ خدیجہ (فرضی نام) کی طرف آپ کو لے کر جاتا ہوں۔ خدیجہ کی شادی ناکام ہوگئی خوبصورت، تعلیم یافتہ، ہائی مڈل کلاس فیملی سے تعلق ہے۔ شوہر کو شک کرنے کی بیماری تھی ساس اور نندیں بھی پریشان کرتی تھیں روز کا جھگڑا معمول تھا اور شادی کے صرف تین سال بعد وہ طلاق لے کر اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی تھی۔

مجھے کہنے لگیں کہ اب وہ ساری زندگی دوبارہ شادی کے بارے میں سوچے گی بھی نہیں۔ شوہر اور سسرال کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے خدیجہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے ان سے بھی روٹین لائف کے بارے میں پوچھا تو بتایا انہوں نے گھر میں ایک کونسلنگ کا سیٹ آپ بنایا ہے۔ جس میں وہ خواتین کو ازدواجی زندگی کے مشکلات سے نکلنے کے طریقے بتاتی ہیں اور سارا دن پریشان حال خواتین ان کے آس پاس موجود ہوتی ہیں۔ وہ اپنی کہانیاں بھی ان سے شیئر کرتی ہیں انکم کوئی خاص نہیں ہے ڈیڑھ سال کا بیٹا بھی ہے اور اس کی دیکھ بھال میں ہی دن گزر جاتا ہے۔

کہنے لگیں ثاقب صاحب آخر میرا کیا قصور تھا کہ مجھے اس قسم کا شوہر ملا۔ حسن، قابلیت اور اچھے خاندان سے تعلق کے باوجود آج میں ایک قابل رحم زندگی گزار رہی ہوں اور مستقبل میں مجھے اندھیرا ہی نظر آرہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین ان کی دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں ایک دو رشتے بھی آئے لیکن انہیں اب مرد کی ذات سے نفرت ہو چکی ہے۔

خدیجہ کی سٹوری کو بھی یہاں روکتے ہیں اور اٹھائیس سالہ گولڈ میڈلسٹ بابر (فرضی نام) کی طرف چلتے ہیں۔ بابر میرے سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کشادہ پیشانی ان کی ذہانت کو ظاہر کر رہی تھی سکول کے زمانے سے ہی ٹاپر رہے یونیورسٹی میں گولڈ میڈل لیا والدین کی آنکھوں کا تارا تھے سرکاری جاب کرنے کی خواہش تھی۔ تین چار جگہوں پر اپلائی کیا تحریری امتحان سے باآسانی سرخرو ہو کر اگلے فیز میں آئے انٹرویو بھی اچھے دیے بابر کی ڈریسنگ اور کمیونیکیشن بھی بہت اچھی تھی لیکن دو تین انٹرویوز کے بعد اوپر سے کسی سفارشی کے لیے فون آجاتا اور بابر صاحب کے سلیکشن نہ ہو پاتی۔ یہ سلسلہ تقریباََ تین سال تک چلتا رہا اور آخر میں تھک ہار کر انہوں نے پرائیویٹ کمپنی میں میڈیم لیول کی جاب کر لی۔

میرے سامنے ایک تھکا ہوا ٹوٹا شخص بیٹھا تھا بابر نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا کہ ثاقب صاحب میرا گولڈ میڈل میرے کس کام آیا اس ملک میں سفارش کے بغیر کوئی شخص آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان کو جوس پلانے کے بعد میں نے روٹین لائف کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کے سرکل میں قابل لیکن ناکام لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں ان کی فزیکل اور سوشل میڈیا پہ میٹنگز ہوتی رہتی ہیں۔ سب لوگ سسٹم کے ڈسے ہوئے ہیں اور ہر شخص کے پاس ناکامی کی ایک بڑی کہانی موجود ہے۔

بابر نے بتایا کہ میں نے آج تک کسی شخص کو میرٹ پر کسی بڑی پوسٹ پر سلیکٹ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں جب جاب کے لیے اپلائی کرتا ہوں تو یہ بات جانتا ہوں کہ اوپر سے کوئی پرچی آئے گی اور میں منہ دیکھتا رہ جاؤں گا۔

میرے دوستو فروزن شولڈر کی تکلیف میں مبتلا عبداللہ کی طرف واپس آتے ہیں۔ میں نے کہا عبداللہ جب اللہ تعالی آپ کو اس بیماری سے شفا دے دیں گے تو پھر آپ کی روٹین کیا ہوگی وہ میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگے یاد رہے کہ عبداللہ اپنے گھر سے ہی چھوٹا موٹا آن لائن کام کرتے ہیں میں نے مزید وضاحت کی اور کہا کہ آپ کا مرض جب ختم ہو جائے گا تو آپ ڈرائیو کرکے ہسپتال نہیں آئیں گے۔ یہاں پر موجود میڈیکل سٹاف اور باقی لوگوں سے جو آپ دو گھنٹے کی گپ شپ لگاتے ہیں وہ ختم ہو جائے گی بہن سے ملاقات میں حال احوال کرنا، کافی پینا بند ہو جائے گا مختلف محافل میں فروزن شولڈر کے حوالے سے ماہرانہ گفتگو کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آپ اپنے گھر تک محدود ہو جائیں گے کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟

ان کے چہرے پر موجود سلوٹیں اور گہری ہوگئیں لمبے گہرے سانس لیتے ہوئے کہا کہ میں صحت مند ہونا چاہتا ہوں میں نے کہا آپ یہ چاہتے ہیں اس لیے علاج بھی کروا رہے ہیں لیکن آپ کا لاشعور جب آپ کی صحت اور بیماری کو ترازو میں تولتا ہے تو رزلٹ یہ نکلتا ہے کہ آپ کا تو پورا سرکل ہی بیماری کے گرد گھومتا ہے بیماری کی وجہ سے آپ سوشل ہیں نئے دوست بنا رہے ہیں محافل میں ماہرانہ گفتگو کر رہے ہیں۔ اس بیماری کے خاتمے کی صورت میں آپ کا یہ پورا سرکل ٹوٹ جائے گا۔ اسی کو سیکنڈری گیم کہتے ہیں، اصل میں آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں بیمار رہوں تاکہ میرا یہ لائف سٹال برقرار رہے۔ عبداللہ نے سر جھکا لیا۔۔

خدیجہ کی سٹوری کی طرف واپس آتے ہیں ان کا لائف سٹائل بھی ان کی مظلومیت سے وابستہ ہے۔ پریشان حال خواتین کو اپنی کہانی سنانا، ان کے دکھڑے سننا، ہر وقت پریشان رہنا، سابق شوہر اور سسرالیوں کو کوسنا۔ اگر خدیجہ دوسری شادی کر لیں تو یہ مظلومیت والا لائف سٹائل ایک ہی دن میں غائب ہو جائے گا لاشعور حرکت میں آتا ہے مظلومیت اور دوسری شادی کو ترازو میں تولتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ میری تو پوری کی پوری زندگی ناکام شادی کی کہانی کے گرد گھومتی ہے اس لیے مجھے مظلوم بن کر ہی زندگی گزارنی ہے یہ سیکنڈری گیم ہے شادی کرنے کی خواہش بھی خدیجہ کے اندر موجود ہے لیکن وہی سکینڈری گیم کا الجھا ہوا تانا بانا۔۔

اور بابر کی تیسری سٹوری کو بھی سیکنڈری گیم کے ساتھ لنک کرکے سمجھیں گولڈ میڈلسٹ، سسٹم کی زیادتی کا شکار قابل اور ناکام لوگوں سے دوستی، اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا۔ اگر بابر کسی اچھی پوسٹ پر میرٹ پر منتخب ہوگیا تو اس کا موجودہ لائف سٹائل ختم ہو جائے گا۔

میرے کونسلنگ سیشنز کے بعد انہوں نے جانا کہ رکاوٹ کہاں پر ہے سکینڈری گیم کا پیچیدہ جال انہیں آگے نہیں بڑھنے دے رہا۔

آج الحمدللہ تینوں لوگ اس جال سے نکل چکے ہیں۔

محترم دوستو آپ پچھلے کچھ مہینوں، سالوں سے کسی مسئلے کا شکار ہیں تو دیکھیں کہیں اس تکلیف کے ارد گرد آپ کا لائف سٹائل تو موو نہیں کر رہا ہے یہ سیکنڈری گیم کے ایکٹو ہونے کی نشانی ہے اس سے کیسے نکلنا ہے دماغ اور جسم کے تعلق کو سمجھ کر زندگی کو کیسے ڈیزائن کرنا ہے اس بارے میں پاکستان کی پہلی 30 گھنٹے کی آن لائن ورک شاپ NeuroSomatic Practitioner Workshop کے نام سے میں آفر کر رہا ہوں آپ مجھے اس نمبر 03009273773 پر فون کرکے ورک شاپ کا حصہ بنیں۔ یاد رکھیں ورکشاپ کا حصہ بننے کے بعد آپ کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a Mental Health Consultant with over a decade of experience in hypnotherapy, leadership development, mindfulness and emotional intelligence.

He is also a seasoned writer, having authored over 150 columns and a renowned book. Alongside his work as a corporate trainer, he actively researches, compiles and documents the success stories of remarkable Pakistani personalities through the lens of Mind Sciences.

If you know someone with an inspiring story worth sharing, you can refer them to him. Muhammad Saqib will personally interview them to document their journey.

For Mind Sciences Consultation and Sales Training, you can reach him via WhatsApp at 0300-9273773.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari