Sardar Imran Khan Brohi, Aajzi Se Urooj Tak Ka Safar
سردار عمران خان بروہی، عاجزی سے عروج تک کا سفر

مائنڈ سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کی انرجی ایک خوشبو کی طرح اپنا اثر چھوڑتی ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے کسی محفل میں انٹر ہوتے ہی ہر شخص کے چہرے پر خوشگواریت پھیل جاتی ہے اسی طریقے سے نیگیٹو انرجی والا شخص پورے ماحول کو افسردہ کر دیتا ہے یہ انرجی یا اورا کیسے بنتا ہے ایک شخص جس کا دسترخوان وسیع ہو طبیعت میں عاجزی ہو اس کی ذات لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو اور گفتگو میں شائستگی ہو تو اس کے اورا میں وسعت آنا شروع ہوتی ہے آپ اس کی ذات میں کشش محسوس کرتے ہیں پچھلے دنوں کراچی جم خانہ میں ڈنر کے دوران سردار عمران خان بروہی سے ملاقات ہوئی اوپر بیان کی گئی خوبیاں ان کی ذات میں موجود ہیں اس لیے آپ فورًا سے کنیکٹڈ ہو جاتے ہیں۔
آج کے کالم میں آپ کی ملاقات ان سے کرواتے ہیں سردار عمران کی پیدائش کراچی میں لیاری کے علاقے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لیاری ہی میں حاصل کی۔ ان کا گاؤں نواب شاہ میں واقع ہے۔ ان کے آباؤ اجداد تعلیم پر خاص توجہ دیتے تھے، ہر دور کے لحاظ سے انہوں نے اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے بنائے اور لوگ صدیوں سے یہاں تعلیم کی غرض سے آتے رہے ہیں۔
والد صاحب پی آئی اے میں ملازمت کرتے تھے وہ بھی بروہی قبیلے کے سردار تھے اس لیے ڈیرا ہر وقت آباد رہتا تھا۔
اپنے والد صاحب کو یاد کرتے ہوئے سردار عمران خان بروہی نے کہا کہ ثاقب بھائی میں نے برداشت اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے اور مہمان نوازی اپنے والد صاحب سے سیکھی۔
ان کی والدہ بےجا لاڈ پیار کے خلاف تھیں کہتے ہیں میری والدہ کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے اور وہ ہر وقت میرے لیے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔
سردار عمران سم گروپ آف کمپنیز کے نام سے ایک بڑی بزنس چین کو چلا رہے ہیں۔
ریل اسٹیٹ بلڈر، آئی ٹی، پٹرولیم، کنسلٹنگ، لاجسٹک، پاور، آٹومینوفیکچرنگ، پورٹ آپریشن، سکیورٹی، قانونی مشاورت اور سوشل ورک کے کام ان کے پورٹ فولیو میں شامل ہیں۔
میں نے پوچھا، "اتنی ساری کمپنیاں کیسے چلاتے ہیں؟"
خوبصورت جواب دیا: "میں ٹیم بناتا ہوں۔ آپ ہر فیلڈ کے ماہر افراد کو اپنی ٹیم میں شامل کر سکتے ہیں"۔
سردار عمران کی شخصیت کو مشہور عربی شاعر ایلیا ابو ماضی کی اس نظم سے سمجھتے ہیں انہوں نے لکھا۔۔
اُس نے کہا: آسمان افسردہ اور ترش رو ہے۔
میں نے کہا: مسکراؤ، آسمان کی ترش روئی کے لیے بس اتنا کافی ہے۔
اُس نے کہا "مشرق کی تیز ہوا "صبا" پھر آدھمکی۔
میں نے اُس سے کہا مسکراؤ، افسوس کرنے سے کاٹ دار ہوا لوٹ نہیں جائے گی۔
اس نے کہا: وہ جو میرا آسمان محبت تھی عشق کا دوزخ بن چکی ہے۔
میں نے اُسے اپنے دل کا مالک بنایا
لیکن اُس نے مجھ سے باندھے عہد توڑ دیے۔
سو میں کیونکر مسکراؤں؟
میں نے کہا: "پھر بھی مسکراؤ اور خوش رہو
اس لیے کہ اگر تم اُس کے
وعدوں کا حساب کتاب کرنے بیٹھ گئے
تو ساری عمر اذیت میں رہو گے"۔
اس نے کہا: "میرے ارد گرد دشمنوں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
دشمنوں کےگھیرے میں کیا خوشی محسوس کروں؟
میں نے کہا: "تو بھی مسکراؤ، اگر تم دشمنوں سے بلند مرتبہ اور عظیم نہ ہوتے تو
وہ کبھی تمھیں مذمت کا نشانہ نہ بناتے۔
اُس نے کہا: "راتوں نے مجھے کڑوے گھونٹ پلائے ہیں۔
میں نے کہا: مسکراؤ، اگر چہ تمھیں کڑوے گھونٹ پلائے گئے ہیں"۔
ہوسکتا ہے تمھیں گاتا دیکھ کر
کوئی دکھی دل انسان افسردگی پس پشت ڈال دے
اور گانے لگے۔
"کیا تم سمجھتے ہو کہ گنگنا کر کوئی درہم کما لو گے یا خوش روئی اور بشاشت سے خسارہ پاؤگے؟
اس لیے ہنسو۔ دیکھو، تارے تاریکیوں کی دبیز تہوں میں بھی ہنستے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم ستاروں سے محبت کرتے ہیں۔
آپ ان کے ویژن کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان گورنمنٹ اقوام متحدہ میں ایک پروپوزل پیش کرے کہ امریکہ اور چائنہ کے صدر کو اکٹھے بٹھایا جائے اور وہ اپنا مشترکہ اگلے دس سال کا پلان دنیا کے سامنے پیش کریں۔
میرے اس سوال کے جواب میں کہ آپ خود کو دس سال کے بعد کہاں دیکھتے ہیں جواب دیا کہ میں اقوام متحدہ میں اپنے آپ کو پاکستانی پیس ایمبیسیڈر کے روپ میں دیکھتا ہوں۔
میں اپنے فیورٹ سوال کی طرف آیا کہ کامیاب ہونے کے لیے کون سے کیپسول کھائے جائیں چہرے پر مسکراہٹ آگئی کہا کہ بزنس کرنے کے لیے آپ کا مزاج خیر خواہی والا ہونا چاہیے۔
چونکہ قبیلے کے سردار ہیں اس لیے ہزاروں لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔ ان کی بات توجہ سے سننا، تھپکی دینا، حل نکالنا، ان کے کام کو سراہنا یہ سب کچھ کرنے کی وجہ سے ان کے مینٹل مسلز بہت مضبوط ہیں۔
سخت محنت اور ایکشن لینے کی اہمیت پر بات کی۔
منو بھائی یاد آگئے۔
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندا اے
سردار عمران نے اپنی زندگی کراچی میں گزاری سولہ، سترہ سال کی عمر سے ہی بزنس شروع کیا گارمنٹس فیکٹریوں سے پیکیجنگ کا کام لے لیتے تھے اس وقت بھی تیس سے چالیس لوگوں کی ٹیم بنائی ٹرانسپورٹ کا کام کیا کراچی سے پنجگور اور گوادر تک ان کی گاڑیاں چلتی تھیں۔ کہتے ہیں ثاقب بھائی شروع کے دنوں میں سخت محنت کی اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے سچ کی سیڑھی کو کبھی نہیں چھوڑا۔
مزید بیان کیا کہ کامیابی سٹیپ بائی سٹیپ پروسیس کا نام ہے رسک اور رزق کے درمیان تعلق کی بات کی۔
رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں نئے آنے والوں کو مشورہ دیا کہ زمین کو چھاننے کا فن سیکھیں۔
آپ کو پیپرز کی سمجھ ہو زمین کا قبضہ لیتے ہوئے لینٹر ڈالنے کی بات کریں ریسرچ کریں خود انہوں نے بہت سے پروجیکٹس کامیابی سے مکمل کیے جن میں گلف گرین، گوادر سی ویو، گلف گرین سٹی، عبداللہ گرین سٹی قابل ذکر ہیں۔
مستقبل میں انڈسٹریل زونز پر کام کرنا چاہ رہے ہیں۔
مڈل ایسٹ میں جاتے رہتے ہیں بلوچستان کے حوالے سے بات ہوئی۔ سردار عمران خان بروہی نے کہا کہ بلوچستان میں مڈل ایسٹ کی طرز کا سسٹم لایا جائے انفراسٹرکچر ہو، مواقع ہوں دبئی کی طرف فاسٹ لائف ہو۔
ٹیم اور خاندان کے ساتھ جڑ کر رہنے کی بات کی کہ ریوڑ میں آؤ اور سیدھے چلو۔
خواتین کے لیے خدیجۃ الکبری للبنات کے نام سے بہت سے مدارس قائم کیے ان کی بہنیں بہت سے مدارس کو دیکھتی ہیں۔
فیملی لائف کی اہمیت پر بات کی اپنی شریک حیات کے تعاون کے بارے میں بتایا کہ گھر کے سکون کی وجہ سے ہی وہ بڑے بڑے کام کر پاتے ہیں۔ بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں۔
آخر میں ان کے ویژن کی عکاسی کرتے ہوئے علامہ اقبال کے یہ اشعار
تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول