Roz Naya Kya Kya Aap Ne
روز نیا کیا کیا آپ نے

قسمت! ثاقب صاحب ہر شخص کے دروازے پر آتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کی دستک کو سن ہی نہیں پاتے۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر اس دستک کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو ابھی تیار نہیں ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹکٹکی باندھ کر قسمت کی دستک کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی وہ ان کے دروازے پر دستک دیتی ہے وہ لپک کر اس آفر کو اس رحمت کو اپنے جھولی میں بھر لیتے ہیں۔
تیز تیز باتیں کرتا ہوا پرجوش اینرجیٹک 40 سال کے لپیٹے میں یہ نوجوان پچھلے جمعے مجھے میرے آفس میں ملا آنکھوں میں خواب چہرے پر ٹھہراؤ اور باڈی لینگویج یہ بتاتی تھی کہ قدرت اس سے بڑا کام لینے والی ہے۔
جی ہاں! آج کے اس کالم میں میں آپ کو بتاؤں گا یوسف افتخار احمد کی سٹوری جو سی ای او ہے بلڈنگ مٹیریل مال (Building Material Mall) پراجیکٹ کے۔
کیسے کراچی کی گلیوں میں پرورش پانے والا مڈل کلاس فیملی سےتعلق رکھنے والا نوجوان ایک اتنا بڑا خواب دیکھ سکتا ہے؟
آئیے ہم ذرا اس معاملے کی تہہ تک جاتے ہیں، میں نے پوچھا ان محترم صاحب سے کچھ بتائے اپنے بچپن کے بارے میں، اپنے سکول لائف کے بارے میں، آپ کے والد صاحب آپ کی والدہ کیا سوچتے تھے آپ کے بارے میں؟
تو اس سطح پہ ان کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ انہوں نے کہا، میرے والد صاحب جو ایک پروفیشنل بینکر تھے، یوسف افتخار احمد صاحب ہائی سکول میں تھے اس وقت۔
ایک جملہ ان کی زبان پہ ہوتا تھا مجھ سے پوچھتے تھے "یوسف روز نیا کیا کیا آپ نے؟"
تو میں کہتا تھا ڈیڈ میں ہر روز کیا نیا کیا کر سکتا ہوں؟ اور وہ جواب میں صرف مسکرا کر رہ جاتے تھے۔
گریجویشن کرنے کے بعد یوسف افتخار صاحب نے بینکنگ کا کیریئر جوائن کیا اور پانچ سال یو بی ایل اور پانچ سال سٹینڈرڈ چار ٹر بینک میں کام کرتے رہے۔ اس جاب کا جو فائدہ بتایا انہوں نے کہ بینکنگ کی جاب نے نظم و ضبط، محنت استعداد کار میں اضافہ، ڈریسنگ سینس اور ایکسپوژر سکھایا۔
میں نے کہا محنت، ہارڈ ورک کوDefine کریں۔
افتخار یوسف صاحب نے جواب دیا کہ 10 سے 11 بجے Night تک کام کرتا تھا۔ اتوار کی چھٹی کے دن بھی میرے کئی سالوں تک بینک میں گزرتے تھے۔ اس سے نہ صرف انسان کے فزیکل مسلز بلکہ مینٹل مسلز بھی سٹرانگ اور مضبوط ہوتے ہیں اور جب جاب سے نکل کر اپنا کوئی کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تو والد صاحب کا چھوٹا سا فینسی لائٹس کا الیکٹرانکس کا بزنس تھا۔ اس بزنس میں داخل ہو گئے۔
میں نے پوچھا ان سے، کہ آپ کے بزنس میں آ نے سے اس میں کیا چینج آیا؟ تو انہوں نے بتایا میں نے پرائسنگ پہ کام کیا اور پروڈکٹس کی رینج کو بڑھا دیا اور بزنس مہینوں میں ہی بڑے زبردست طریقے سے ڈبل لیول پہنچ گیا۔
یہاں تک تو اس تحریر میں ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے میرے دوستو جو آپ کو متاثر کرے۔ لیکن ایسی کیا چیز تھی اس نوجوان میں کہ اس نے یہ خواب دیکھا کہ وہ پاکستان کا پہلا بلڈنگ مٹیریل مال بنانا چاہتا ہے یہ ورڈ شاید آپ نے پہلی بار سنا ہوگا۔ ایک ایسا مال جس میں 300 سے زیادہ دکانیں آپ کو ایک ہی چھت کے نیچے ملیں گی۔
سیمنٹ بجری سے لے کے بلڈنگ سے متعلق ہر چیز ایک ہی بلڈنگ کے نیچے ایک نیا ویژن ایک نیا خواب ایک نیا کانسپٹ جو ابھی تک پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہے۔
یہ کرنے کے لیے یوسف صاحب میں ایسا کیا یونیک ہوگیا؟ میں نے پوچھا ان سے۔
ایک دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے جواب دیا کہ جو بھی شخص اس مال میں جاب کرنا چاہے گا اس کو پہلے ٹریننگ دی جائے گی ٹریننگ کے بعد پھر وہ یہاں پر کام کرنا شروع کرے گا۔
ایکسپورٹرز کا کارنر ہوگا مال کے اندر کوئی ایکسپورٹر آتا ہے اور وہ وہاں سے ایک بڑا آرڈر لے کے چلا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں پر پوری ٹیم ہوگی یہاں پہ کسٹمر سروس کے لیے اور جیسے ہی یہ کسٹمر مال میں داخل ہوگا ایک شخص اس کے ساتھ منسلک ہو جائے گا وہ اس کو گائیڈ کرے گا کہ جو پروڈکٹ آپ کو چاہیے یہ کون سے فلور یا کون سی دکان پہ موجود ہوگی۔ ہمارے سٹاف کا ممبر ان کو ہر لحاظ سے رہنمائی فراہم کرے گا۔
یہ ایک گیم چینجر ہوگا پاکستان کی بلڈنگ مٹیریل اکانومی میں اور انہوں نے بتایا کہ یہ مال ایک سال کے عرصے میں پاکستان میں لانچ ہو جائے گا۔ اس کے بعد جیسے ہم کہتے ہیں Sky is the limit. میں نے پوچھا ان سے کہ اتنا بڑا کام کرنے کے لیے آپ میں کیا چیز یونیک یا منفرد تھی؟
تین چیزیں بتائی انہوں نے۔ جسے پاکستان کا ہر نوجوان فالو کر سکتا ہے۔
1۔ ہجوم سے الگ چلنے کا شوق کچھ نہ کچھ یونیک کرنا۔
2۔ بچپن سے ہی میرے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ارادوں کا پکا شخص ہے۔ جب کسی کام کی ٹھان لیتا ہے۔ تو جب تک وہ کام پورا نہ کر لے اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتا۔
3۔ کلیئر کٹ Vision ہونامیرا، ثاقب صاحب۔
یہ سب اعتماد سے بتایا انہوں نے!پختہ ایمان تھا کہ پاکستان میں یہ کام میں کر سکتا ہوں!تو میرے محترم پڑھنے والو، اس پرنسپل کو آپ بھی اپنا کر کچھ ایسا کر سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کی بلکہ پاکستان کی پہچان بن جائے۔
اس سیریز کا اگلا کالم ہم تب لکھیں گے جب یوسف افتخار صاحب اپنا پہلا بلڈنگ مٹیریل مال پاکستان میں لانچ کر دیں گے اور یقینا یہ وقت کچھ ہی مہینوں کے بعد ہم دیکھیں گے اور مال کے لانچنگ کو اپنے Next کالم کا موضوع بنائیں گے۔