Qabron Main Nahi, Hum Ko Kitabon Mein Utaro
قبروں میں نہیں، ہم کو کتابوں میں اتارو
آپ دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کی رفاقت میں کامیابی کے راز جاننا چاہتے ہیں۔ ان کو ٹچ کرکے ان کے جسم میں موجود بے پناہ انرجی کو محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وقت کی کمی اور وسائل کی قلت آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ ان صاحب سے ملاقات کا وقت لیں، ایک طویل سفر کریں اور ان کی رفاقت کو انجوائے کریں۔
محترم دوستو! آپ اس سے ملتا جلتا مزہ ان کی آٹو بائیوگرافیز پڑھ کر اٹھا سکتے ہیں۔ کتاب کا لمس اور لفظوں کی جادو نگری، آپ کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گی جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ طاقت ہے کتابوں کی۔
یہ کتاب ہی ہےجس سے حاصل کیا ہوا علم ایک انسان کو دوسری مخلوقات پر برتری عطا کرتا ہے۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا کہتے ہیں جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا وہ اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتا اور اسے کوئی نئی بات سکھانا انتہائی مشکل ہے۔
ایک مفکرنے کیا خوب کہا "مطالعے سے بے نیاز قومیں دھرتی کا بوجھ ہوتی ہیں یہ علم ہے جو معاشرے کو معتبر کرتا ہے۔
کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہے کتاب آنکھوں میں
اس شعر کا حقیقی لطف پچھلے ہفتے کراچی میں جاری "انٹرنیشنل بک فیئر" میں محسوس ہوا۔ پانچ روزہ اس میلے کے پہلے ہی دن، میں یہ سوچ کر اس میگا ایونٹ میں گیا کہ آج جمعرات ہے ورکنگ ڈے ہے پہلا دن ہے تو رش کم ہوگا۔ پارکنگ میں گاڑیوں کی لمبی قطار دیکھ کر دل خوشی سے بھر گیا۔ کتاب میلے کے ہر سٹال پر لوگوں کا ہجوم اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ یقینا یہ صدی کتابوں کی آخری صدی نہیں ہے۔
سنگ میل پبلی کیشنز، علم و عرفان اور ریڈنگز کے سٹال لوگوں کی خصوصی دلچسپی کا محور تھے۔ اور سب سے زیادہ رش بک کارنر جہلم کے کاؤنٹر پر تھا۔ محترم گگن شاہداپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ آنے والوں کا استقبال کر رہے تھے۔ بک کارنر نے کتابوں کو پروموٹ کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ نا قابل فراموش ہے۔
میں نے اس دن 35 کتابیں خریدیں زیادہ تر سائیکالوجی اور روحانیت کے موضوعات کو کور کرتی ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد کتابیں اوریجنل ہیں اور قیمت کی بات کریں تو ان تمام کتابوں کی مجموعی قیمت Diners یا کسی اور برینڈ کے ایک ٹو پیس سوٹ کے برابر ہے۔ یعنی
35 Books =ایک سوٹ
کون کہتا ہے کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں۔
ان کتابوں میں شاہ حسین کا "عشق نامہ" بابا عرفان الحق کی "مومن"، "اسلام اور صحت" خاصے کی چیز ہیں۔
بک کارنر سے شائع شدہ ان کتابوں کے عمدہ پیپر ورک نے پڑھنے کے ذوق کو دو چند کر دیا ہے۔ قاسم علی شاہ کی مختصر کتاب "چالیس کا چلہ" تو اسی رات ختم کر لی۔ ہائلی ریکومینڈڈ ہے۔
خود نوشت میں طارق محمود کی "دام خیال" اس ہفتے سے پڑھنا شروع کروں گا۔ راؤف کلاسرا کی بھی دو کتابیں لی۔ ریڈنگز کے سٹال سے یاسمین معید کی Healing the emptiness اور ایک اور کتاب لی۔
نئے سال کا آغاز ان کتابوں سے کروں گا۔ پرانی کتابوں میں"کشف المحجوب"، "تذکرہ غوثیہ" واصف علی واصف کی کتابیں اور کچھ ناول بھی لیے۔ لبرٹی بکس سے دیپک چوپڑا کی Abundance زیر مطالعہ ہے۔
محترم قارین! یہ ایک الگ دنیا ہے۔ بقول اعجاز توکل
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
افتخارعارف نے کیا خوب کہا
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امیداثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
آپ نے 2023 میں کیا کچھ حاصل کیا اس کا فیصلہ دو چیزیں کرتی ہیں ان 12 مہینوں میں آپ نے کتنی نئی کتابیں پڑھیں اور کتنے نئے لوگوں سے ملاقات کی۔
ایک رائٹر لکھتا ہےکہ "میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے خود اپنی معرفت حاصل ہو جتنی دیر میں لکھنے کے عمل میں مصروف رہتا ہوں اتنی دیر میری ملاقات خود اپنے آپ سے رہتی ہے"۔
ڈیکارٹ نے کہا "میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں اسی طرح جب میں لکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں ہوں"۔
کتاب کلچر کو پروموٹ کریں اپنے گھر میں بچوں کے رسالے نونہال اور تعلیم و تربیت لگوائیں۔ سالگرہ میں احباب کو کتاب کا تحفہ دیں۔ بچوں کو کامیابی پر خوبصورت سی کتاب انعام میں دیں اور نئے سال پر اپنے آپ کو کتاب پڑھنے کی عادت انعام میں دیں۔ جن کتابوں کے نام لکھے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایک کتاب لے کراپنےسفر کا آغاز کریں۔ آپ اگر ایک بک لور ہیں تو اپنی فیورٹ کتاب کا نام کمنٹس میں لکھیں۔