Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Kajal Khotha Se Kamyabi Ke Principles Tak (2)

Kajal Khotha Se Kamyabi Ke Principles Tak (2)

کاجل کوٹھا سے کامیابی کے پرنسپلز تک (2)

اپنے پسندیدہ موضوع، کامیابی کے پروٹوکولز، کامیابی کے کیپسولز کی بات کرتے ہیں۔ کامیاب ہونے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی ذہانت ضروری نہیں۔ لیکن محنت، سخت محنت تو شرط ہے۔ اس کالم میں ہم جدید سائنسی ٹیکنیکس کے ساتھ، روحانیت کی ان دیکھی وادیوں سے بھی کامیابی کے اسلوب کو سمجھیں گے۔

1-سب سے پہلے نمبر پر صبر، ڈٹے رہنا، جس کو جدید زبان میں پرسسٹنسی کہا جاتا ہے، ضروری ہے۔

جنگ کے زمانے میں فوجیوں کی کمر پہ جو پٹھو ہوتے ہیں۔ اُن میں جنگ کے دوران پیش آنے والے ہنگامی حالات میں اشد ضرورت کی ہر نمائندہ چیز مناسب مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ ایسے ہی حال مست سیلانی آوارہ گرد جن کی زندگی صبح کہیں شام کہیں سے عبارت ہوتی ہے ان کے کاندھوں کی بجائے اندر ایک پٹھو ہوتا ہے جس میں خوراک دواؤں اور الم علم کی بجائے صبر بر داشت بے خوفی معاملات و حالات سے نبٹنے کا ادراک خیال، سوچ اور عمل میں توانائی وتوازن اور یہ جزو ایمان کہ اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں۔

آگ ہو یا پانی تخت ہو تختہ تاریکی ہو یا روشنی دشمن ہو یا دوست امن ہو یا جنگ درویش تنگ نہیں ہوتا۔ گھٹاؤں آزردگیوں، بیماریوں، تکلیفوں، مخالفتوں میں وہ اور سوا ہو جاتا ہے۔ بدتر سے بدترین حالات میں بھی آسودہ نظر اور کشادہ خاطر رہتا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو تو اس کی پیشانی کا چراغ لو دینے لگتا ہے اس کی آنکھوں سے خیرگی کی جو الا پھوٹ پڑتی ہے۔

درویش کے پاس شش جہت کی مانند چھ حسیں تو ہوتی ہی ہیں مگر ایک ساتویں بھی ہوتی ہے۔ صحراؤں دشوار گزار پہاڑوں کے لئے خصوصی طور پہ تیار کی گئی گاڑیاں فورو یل ڈرائیو ہوتی ہیں۔ ان کے پہیئے بھاری ٹائر مضبوط چوڑے اور گہرے کھانچوں والے ہوتے ہیں۔ ان گاڑیوں میں ریورس اور فارورڈ کے لئے سپیشل گیئر ہوتے ہیں۔ ان کے آگے پیچھے فاضل پانی اور ایندھن کی ٹنکیاں سرچ لائٹیں اور آہنی رسوں کی چرخیاں لگی ہوتی ہیں۔

بعینہ درویش کے ساتھ بھی اسی نوع کا بہت سا سامان لگا ہوتا ہے۔ یہ بھی فور ویل ڈرائیو کی طرح چہار یار سے ڈرائیور ہوتا ہے۔ اس کے بھی پاؤں پکے مضبوط اور نیچے کی مٹی نہ چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔ آگے پیچھے دیکھنے کی تیز نگاہ آنکھوں میں فاضل پانی کی ٹنکیاں اللہ کے خوف کا ایندھن اور ازل وابد کی جانب رجوع کے سپیشل گیئر ہوتے ہیں۔ انہیں بھی صبر و جبر کے دشت محمل و بُردباری کے صحراؤں حق و حقانیت کے اونچے اونچے پہاڑوں اور غم و اندوہ مصائب و آلام طعن وتشنیع کی دلدلوں سے سرخروئی کے ساتھ گزرنے کے لئے خصوصی طور پہ تیار کیا جاتا ہے۔

2- یونیورسل پرنسپلز، یعنی آسان زبان میں سچ بولنا، سیدھے راستے پر چلنا، کامیابی کی ضمانت ہے۔ دائیں ہاتھ کو استعمال کیا جائے، دائیں راستے پر چلا جائے۔ اس کو گہرائی میں سمجھتے ہیں۔

قرین سعید وسلیم یہی دائیں جانب ہوتی ہے۔ کھانا پینا، علیک سلیک مصافحہ انگشت شہادت، لکھنا لکھانا، پڑھنے سیکھنے کے لئے کتاب کے اوراق کھولنا، رزق حلال کمانے کے لئے اسی دائیں ہاتھ کا زیادہ استعمال۔ دایاں قدم پہلے بڑھانا نماز میں دائیں جانب اسلام علیکم کہنا۔ نیکیوں لکھنے والا دائیں طرف والا فرشتہ۔ انسانی جسم میں دائیں جانب کے اعضا و اعصاب کو بائیں جانب سے بدرجہ فوقیت حاصل ہے۔

جو دائیں ہاتھ بازو اور ٹانگ پاؤں میں طاقت ہوتی ہے وہ بائیں جانب کو نصیب تک نہیں۔ جو دائیں آنکھ دیکھ سکتی ہے وہ کچھ دوسری آنکھ کے بس میں نہیں۔ شست بھی یہی آنکھ باندھتی ہے۔ تجمل و تجلی کی برداشت کی اہل بھی یہی آنکھ ہوسکتی ہے۔ جنت کو بھی پہلے یہی آنکھ دیکھے گی۔ اس کا پھڑکنا بھی سعد و برکت ہوتا ہے۔ تاریکی میں سب سے پہلے دائیں آنکھ فوکس ہوتی ہے۔ سوتے سمے بند بائیں اور بیدار ہوتے ہوئے پہلے وا بھی یہی دائیں آنکھ ہوتی ہے عدو کے لئے قہر و کراہت بائیں عدسے سے اوبتی ہے اور محبوب کے لئے مہر و محبت دا ئیں عین نین کے نقطے میں ہیرے کی کنی کی مانند ڈھلکیں مارتی ہے۔

دلہن کے دائیں پاؤں کا گن اور دولہا کے دائیں ہاتھ کا پن سیاست میں دائیں اور بائیں بازو۔ دائیں پیر کی مٹی غور سے دیکھیں ہر ذی نفس جو حرکت کر سکتا ہے فطری طور پر دائیں جانب جھکولا کھاتا ہے۔ فاتحوں اور کجکلاہوں کے ہاں دائیں جانب ہمیشہ وہ مقربین نشست بردار ہوتے ہیں جو ہم خیال، منظور نظر فیروز مند اور کسی نہ کسی خاص اہمیت و حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دائیں سمت کو ہمیشہ سیدھی طرف کہا جاتا ہے۔ گھڑی کی سوئیاں دائیں جانب سرکتی ہیں۔ نومولود کے دائیں کان میں اذان دی جاتی ہے۔ یوم حساب سرکار دو عالم ﷺ کی نشست مبارک رب العالمین کی سیدھی جانب ہوگی۔ پل صراط کے دائیں جانب باب جنت ہوگا۔ علی ھذا القیاس۔ دائیں جانب فضیلت راستی اور سلامتی ہونے کا ایک قدرتی تصور ہے۔

میں نے اپنے بزرگوں کے ہاں بھی یہی طریقہ دیکھا۔ خصوصی طور پہ میرے بابا جی نے کمال شفقت سے مجھے ایک بار نصیحت کی تھی کہ کسی بھی شدید و عجیب دار و گیر الجھٹ معاملہ یا کسی دوحده په وقوف کام نہ کرے مخمصہ آڑے آ جائے تو دائیں راہ پہ اللہ پہ بھروسہ کرتے ہوئے چل پڑ۔ اسی لئے شاید دائیں جانب کو سیدھا ہاتھ کہتے ہیں۔ پھر مجھے میرے تجربے نے بتایا کہ راستی یعنی دائیں جانب چلنے والے سرخروئی کے ساتھ منزل پہ پہنچ ہی جاتے ہیں۔ میں نے لق ودق صحراؤں، پہاڑوں بیابانوں ویرانوں اور ہاتھ سجھائی نہ دینے والے اندھیروں میں یہی طریقہ استعمال کیا شرط یہ ہے کہ انسان دائیں جانب بڑھنے سے پہلے خود کو اللہ کی سپردداری میں بھی دے دے۔

3-بزرگوں نے کہا ہے کہ کھا جا وہ جو سچی تسلی اور تسکین و تاب دے پہناوا وہ جو تن ڈھانپنے کے ساتھ عزت و وقار دے۔

4-اپنے موڈ سوئنگز کو سمجھیں۔

شام اور شب کے ملن پہ کچھ گھڑیاں پل ایسے بھی درآتے ہیں کہ اہلِ جنوں کے کلیجے سلگ اٹھتے ہیں اور ہر سو ان کے دھویں کی دھانس سی پھیل جاتی ہے۔

5- انسان کی قسمت میں جو خواریاں یا خوب آور یاں لکھی ہوتی ہیں وہ ہو کر رہتیں ہیں۔

6- سردی، گرمی، بہار اور خزاں کی طرح انسان کی زندگی بھی موسموں کی طرح ہوتی ہے۔ اس اصول کو سمجھ لیں گے تو زندگی آسان ہو جائے گی۔

تتلیوں، جگنوؤں اور دھنک رنگوں کے موسموں کی مانند امنگوں رنگوں اور خوش گمانیوں، خوش ادائیوں کے دن بھی گنے چنے ہوتے ہیں چشم فلک کچھ تواتر سے یہ منظر و مذاق دیکھنا پسند نہیں کرتی اور نہ ہی انسانی فطرت و جبلت میں یوں ہے کہ وہ لگا تار لگاوٹ و محبت میں مبتلا رہے۔ یہ متلون المزاج ہے۔ اسے محبت کے ساتھ نفرت خیر کے ساتھ خرابی اور میٹھے کے ساتھ کھٹے کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ دوست ہی دوست ہوں اور دشمن کوئی نہ ہو تو آدمی دوستی کے مفہوم و محاسن کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔

جہاں وصل ہی آشکار ہوں اور ہجر کی کوئی شام و شب نہ ہو وہاں خاک مزہ آئے گا۔ انسان کچھ سمجھے نہ سمجھے جانے نہ جانے چنانچہ وقت اور فطرت کے کھلاڑی حالات و معاملات کی بساط پر اپنے اپنے شاہ وفرزین فیلے اسپ و پیادے وغیرہ آگے پیچھے دائیں بائیں آڑے ترچھے کرتے رہتے ہیں۔ یوں بساط کے خانے آباد و بر باد ہوتے رہتے ہیں۔ کسی کو کہیں ٹھکانہ نصیب نہیں ہوتا۔ پل دو پل کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے۔

(اس کالم کو تحریر کرنے کے لیے "بابا محمد یحییٰ خان" کی مشہور کتاب "کاجل کوٹھا" سے مدد لی گئی۔)

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a Mental Health Consultant with over a decade of experience in hypnotherapy, leadership development, mindfulness and emotional intelligence.

He is also a seasoned writer, having authored over 150 columns and a renowned book. Alongside his work as a corporate trainer, he actively researches, compiles and documents the success stories of remarkable Pakistani personalities through the lens of Mind Sciences.

If you know someone with an inspiring story worth sharing, you can refer them to him. Muhammad Saqib will personally interview them to document their journey.

For Mind Sciences Consultation and Sales Training, you can reach him via WhatsApp at 0300-9273773.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali