Kajal Khotha Se Kamyabi Ke Principles Tak (1)
کاجل کوٹھا سے کامیابی کے پرنسپلز تک (1)

کامیابی کے پرنسپلز کی بات کریں تو مینجمنٹ گروز اپنی کمپنی اور حلقہ احباب کی چوائس پر خاص زور دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ورکشاپ کے دوران ایک صاحب نے سوال پوچھا کہ ہم ایگلز کے ساتھ اپنا تعلق کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ وہ تو ہمیں اپنے ساتھ بیٹھنے نہیں دیں گے۔ محترم دوستو! ان کے ساتھ بیٹھنے کا ایک طریقہ کامیاب لوگوں کی اپنے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھنے کا ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب آج کل زیرِ مطالعہ ہے۔ اردو نثر کی روانی، الفاظ کا چناؤ، گہرا مشاہدہ جس کے پیچھے دہائیوں کی ریاضت ہے اور ان دیکھے انداز میں روحانیت کی گہری وادیوں میں گویا بسیرا کرنا۔
آپ بھی میرے ساتھ اس جہانِ حیرت کی سیر کریں۔ چیدہ چیدہ نکات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔۔
* صدیوں کی خجل خواری سے میرے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ سفر یا منزل جو بھی ہو، کبھی ایک سی سنگت لے کر نہ چلو۔ خوار ہو جاؤ گے۔ پیر فرتوت کے ہمرکاب جوان رعنا، ناتواں کے سنگ توانا، نادان کے ساتھ سیانا اور کچے کے ساتھ اگر پکا ہو تو منزل مارنے میں راہ کی مشکل پھر کوئی مشکل نہیں رہتی بلکہ تفریح، ترنگ اور تسکین کا سامان بن جاتی ہے۔
* ایک اکیلا پن وقتی یا جزوی انداز کا ہوتا ہے جو انسان کو قیلولہ کا مزہ اور سکون دیتا ہے اور ایک دائمی یا خود قائمی ہوتا ہے۔ یہ منش کو جیتے جی موت کی سی سزا سے دوچار رکھتا ہے۔ اکیلے پن کا احساس پہلے اداسی سے ڈراتا ہے، اس کے بعد نیم دیوانگی یا پھر پاگل پن کی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا لوگوں میں خود پسندی، خود فریبی، خودکشی کے رجحانات ازخود پیدا ہو جاتے ہیں۔
* جموں کی آب و ہوا، موسم و مناظر، دانہ پانی، محل و ماحول اور بولی ٹھولی ہی ایسی تھی کہ وہاں کے مینڈک بھی ٹرٹراتے نہیں، گنگناتے تھے اور گدھے جیسے ہنہناتے نہیں، الٹے ماترے اترتے ہوئے کٹکٹاتے ہیں اور بلیاں تو تیسرے گالے کے سر ملاتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔
* خوشیاں اور کامیابیاں اگر دائمی و قائمی ہوں تو پھر شاید انسان، انسان کے روپ میں ہی زندہ نہ رہ سکے۔ دکھ سکھ، کامیابیاں ناکامیاں، محبت نفرت اور مرنے جینے کی تعبیر ہی تو اسے استحکام دیتی ہیں۔ اس کے ارادے مضبوط اور حوصلے فراخ کرتی ہیں۔ تدبیر اور تقدیر کے فلسفے کو سمجھنے میں معاون ہوتی ہیں۔
* نیند کا تعلق صرف جاگن، تھکن، تاریکی یا رات کے سمے سے نہیں ہوتا بلکہ ارادے، سوچ، ماحول اور اندر کی کسی ضرورت سے بھی ہوتا ہے۔
* ناآسودہ محرومیوں کے ڈھیر کو کریدنے سے دکھ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
* کھانے طعام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس برتن میں کھانا پروسا جاتا ہے، اس کی پاکی پلیدی کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔
* میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ شرارت، فحش لطیفہ، گندی گالی، ہڈحرامی یا بے حیائی، بے غیرتی کو صرف ہلکی سی شیرے والی انگلی لگانے کی دیر ہوتی ہے، پھر چل سو چل والا سلسلہ نکلتا ہے اور آدمی اندر باہر سے ایسا ننگا تلنگا ہو جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
* لگن لگاوٹ اپنی جستجو کا پکا شخص اگر ہاتھی کی تلاش میں ہو تو حفظ ما تقدم کے طور پر وہ چوہیا کے بل میں بھی جھانکنے کو بے وقوفی نہیں گردانتا۔
* جس طرح ہوشیار دکاندار مصنوعی قلت پیدا کرکے تیز بازاری پیدا کر دیتا ہے اسی طرح معصوم عاشق و معشوق بھی مزہ لینے کی خاطر مصنوعی ہجر و فراق کی کیفیت پیدا کر لیتے ہیں۔ مصنوعی ناراضگی، شکوے، گلے، لڑائی جھگڑے، جھوٹ، موٹ کی بیماری وغیرہ، مگر یہ ٹائم ٹول بھی ایک دن ٹل جاتا ہے اور ختنے ہو کر ہی رہتے ہیں۔
* بدھی والے لوگ کہتے ہیں ساز و سنگھار، ملازم، پالتو جانور، ہتھیار، بیوی اور تعلقات اگر انہیں بروقت سر میں نہ کیا جائے تو نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہیں ہوتا۔
* جس طرح کسی پاک صاف چیز پر مکھی بیٹھ جاتی ہے اسی طرح کبھی بیٹھے بٹھائے بلاوجہ کوئی بات دل میں گرہ کی مانند بیٹھ جاتی ہے۔
* کہتے ہیں کہ اگر گائے چاندی کا دودھ دے تو اس کے ٹیڑھے سینگ بہت بھلے لگتے ہیں۔
* پاپ پڑے ہوئے تجربہ کار بزرگ بتاتے ہیں کہ رتی ماشے تولے کے خالص غیرت مند کو محض چند راتیں کسی طوائف کے کوٹھے یا کچھ عرصہ اس بازار کی کسی دکان پر کھڑا کر دو اور پھر پرکھ کر دیکھو۔ پورا پورا چوبیس قیراط بے حیا، بے غیرت، بے ضمیر، بدلحاظ، بے دیدا ہی نکلے گا۔
* حیا آتے آتے ہی آتی ہے اور اس کے جانے میں محض دو چار بے حیا اور منہ پھٹ قسم کے ملنے جلنے والوں کی عنایات ہی کافی ہوتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے حیا کی چڑیا پھر سے اڑ جاتی ہے۔
* وقت تو مٹھی کی ریت کی طرح ہوتا ہے۔ دانہ دانہ، ذرہ ذرہ کھسکتا رہتا ہے لیکن محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ مٹھی بھری ہوئی ہے۔ "ابھی تو میں جوان ہوں"، پھر پتہ تب چلتا ہے جب مٹھی میں ریت کی بجائے صرف اور صرف خلا باقی رہ جاتا ہے۔ شاید یہی بند مٹھی بلیک ہول کہلاتی ہے جس میں ازل و ابد، فنا و بقا کے جوڑ توڑ کا ایک لا متناہی سلسلہ ہر پل ہر لحاظ ری سائیکل ہوتا رہتا ہے۔
* کالی رات کے کالے مکالمے میں ہر شے کالی ہوتی ہے: کالی سوچ، کالے چہرے، کالے باطن، کالے نصیب۔
* دیکھا گیا ہے کہ من ماری اور خود ملامتی بڑی ٹیڑھی راہ ہے۔ جسم سے جاں، دل سے ارمان گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکال دیتی ہے۔ رسوائی سے چن چن کر روڑے اور پکوڑوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مکوڑے کھانے پڑتے ہیں۔ عزت ملے تو آہ و بقا اور جوتے پڑیں تو "جی جی" کہنا پڑتا ہے۔
* عشق میں کوئی ذات ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اوقات۔ یہاں تو مات، مات اور محض مات ہی ہوتی ہے۔
* وقت دوست بن جائے تو دشمن بھی جی جان بن جاتے ہیں۔ جو بیجو تو گندم، پیتل چھو لو تو کندن بن جاتا ہے۔
مٹی کی چھتوں پہ شیرازی کبوتریاں اور لکے کبوتر اتر آتے ہیں۔ کمیٹی کی پرچی نکل آتی ہے۔ بھینس کٹّی کو جنم دیتی ہے۔ عمرے کا ٹکٹ قرعے میں نکل آتا ہے اور ڈوبی رقم تر جاتی ہے۔
* کہتے ہیں کہ رذیل کیسا بھی شرافت کا لبادہ اوڑھ لے، وہ اپنا اثر رنگ ڈھنگ چھپا نہیں سکتا، جبکہ شریف خاندانی کسی بھی معاملے میں یا کیسے بھی برے اور ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہوں، وہ اپنی نسبی و حسبی خوشبو کو چھپا نہیں سکتے۔ بھلا مانس اپنا پاؤں ہمیشہ خیر و خول پر ہی رکھے گا۔
یہ تمام اقتباسات بابا محمدیحییٰ خان کی مشہور کتاب کاجل کوٹھا سے لیے گئے۔
جاری ہے۔۔

