Glotin Se Glory Tak
گلوٹین سے گلوری تک

مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا "زخم وہ جگہ ہے، جہاں سے روشنی داخل ہوتی ہے"۔
زندگی میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹنے والوں کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ چیلنجز سے بھرپور لائف سٹائل نے انھیں اس مقام پر پہنچایا۔
یہ آج سے ڈیڑھ، دو سو سال پہلے کی بات ہے روس میں بادشاہت تھی جن کو زار کے لقب سے جانا جاتا تھا ایسے ہی ایک بادشاہ کے خلاف بغاوت کے جرم میں ایک بڑے میدان میں باغیوں کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں موت کی سزا دی جا رہی تھی۔ قیدیوں کو لائن میں کھڑا کیا ہوا تھا۔ باری آنے پر قیدی کے سر کو دو آہنی بلیڈوں کے درمیان فکس کر دیا جاتا تھا۔ نگران کے اشارے پر جلاد لیور کھینچتا اور قیدی کا سر دھڑ سے الگ ہو کر نیچے موجود گڑھے میں گر جاتا۔ سزا دینے والے اس آلے کو ہم گلوٹین کے نام سے جانتے ہیں۔
ہم جس دن کا تذکرہ کر رہے ہیں اس دن بھی بیسیوں قیدی بیڑیاں پہنے قطار میں لگے ہوئے گلوٹین کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سوکھے ہوئے ہونٹ، لڑکھڑاتے ہوئے پاؤں، آنکھوں میں موت کا خوف، اس میدان میں موجود ہواؤں میں بھی موت کی سرگوشی محسوس ہوتی تھی۔ ایک قیدی کے سر کو گلوٹین میں فٹ کیا جاتا ہے۔ جلاد کی نگاہیں انچارج کی طرف ہوتی ہیں کہ وہ اشارہ کرے اور لیور دبا کر قیدی کے سر کو تن سے جدا کر دے۔
اچانک کچھ گھڑ سوار میدان میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے لباس سے محسوس ہوتا ہے۔ کہ وہ بادشاہ کی طرف سے کوئی میسج لے کر آئے ہیں گھڑ سواروں کا لیڈر انچارج کے پاس آ کر شاہی فرمان بتاتا ہے کہ بادشاہ نے باغیوں کی سزا معاف کر دی ہے۔ اس لیے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے اب جس شخص کا سر گلوٹین میں فکس ہو چکا تھا۔ اسے گلوٹین سے نکالا جاتا ہے وہ شخص خوشی سے سچ مچ کا پاگل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جس شخص کا نمبر ہوتا ہے۔ وہ رہائی ملنے کے بعد گمنام ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد قطار میں جو شخص کھڑا ہوتا ہے اسے آج ہم دوستو وسکی کے نام سے جانتے ہیں۔ مشہور ناول نگار، کرائم اینڈ پنشمنٹ جیسے عالمی معیار کے ناول لکھنے والا آج پوری دنیا دوستو وسکی کے گن گاتی ہے۔ لیکن شاید اس معیار کا ادب تخلیق کرنے کے لیے آپ کو گلوٹین سے سزا پانے والوں کی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
میرے دوست پاکستان کے مشہور انجینیئر ڈاکٹر نقاب خان کہتے ہیں کہ میں ڈپلومہ کرنے کے بعد کراچی میں ایک انڈسٹریل یونٹ میں کام کرتا تھا کہ میرے آبائی شہر سے کچھ لوگ مجھے ملنے کے لیے آئے، ملاقات ہوئی اور اس کے بعد میرے سپروائزر نے مجھ سے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے کہا کہ ہم انجینیئر نقاب خان سے ملنے آئے ہیں۔ تو میں نے ہنس کر کہا کہ انجینیئر نقاب خان تو یہاں پر نہیں ہے نقاب خان نام کا ایک ٹیکنیشن یہاں پر کام کرتا ہے۔ آپ لوگ اس سے ملاقات کر لیں۔ انجینیئر ڈاکٹر نقاب خان نے اپنے آپ سے کہا کہ اب میں اس کو انجینیئر بن کر دکھاؤں گا۔
امریکہ سے انجینئرنگ کی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ سمنز کمپنی میں جرمنی اور سعودی عرب میں کلیدی عہدوں پر کام کیا اور آج سعودی عرب میں اپنی کمپنی چلا رہے ہیں۔ اپنی انسلٹ کو طاقت میں تبدیل کیا اور آگے سے آگے بڑھتے رہے۔
کراچی کی مشہور کاروباری شخصیت محمد تسلیم رضا کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ آپ کراچی سنیکس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ ابتدائی عمر میں والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ تکلیف دہ بچپن اور پھر اپنے گھر کی چھت سے چھوٹا سا بزنس ان کا بتایا ہوا ایک واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ ملاقات کے دوران بتایا کہ ثاقب بھائی یہ سٹرگل کے دنوں کی بات ہے۔ ہم لوگ چھوٹے پیمانے پر نمکو اور چپس کا کام کرتے تھے۔ ایک خیال آیا کہ اپنے برانڈ نیم کے ساتھ اس کو سیل کیا جائے۔ اب پیکجنگ کا مرحلہ آیا موٹر سائیکل پر ایک بڑی کمپنی پہنچا، تو چوکیدار نے کہا آپ اندر نہیں جا سکتے۔ چوکیدار کو کہا کہ آپ میرا میسج تو اندر دے کر آئیں۔ میں ایک بزنس پروپوزل لے کر آیا ہوں۔ چوکیدار اندر جاتا ہے اور واپسی پر کہتا ہے کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے کتنے آئٹمز کی پیکنگ کروانی ہے یہ اس کو جواب دیتے ہیں۔ وہ واپس اندر جاتا ہے اور واپسی پر جواب دیتا ہے کہ ہم لوگ اتنا چھوٹا کام نہیں کرتے۔ آپ کہیں اور جائیں۔
وقت کا پہیہ گزرتا ہے کچھ ہی سالوں کے بعد اسی پیکجنگ کمپنی کی سیلز ٹیم ان کی فیکٹری میں آتی ہے اور کہتی ہے کہ تسلیم صاحب ایک فیور دیں اور اپنا پیکنگ کا کام ہم سے کروایا کریں۔ تسلیم صاحب نے اُنہیں بتایا کہ میں کچھ سال پہلے آپ کی فیکٹری میں آیا تھا اور مجھے اندر جانے کی بھی اجازت نہیں ملی تھی۔ انہوں نے بھی نقاب خان کی طرح انسلٹ کو اپنی طاقت بنایا۔
ایک اور خوبصورت سچی کہانی آپ لوگوں سے شیئر کرتا ہوں۔ کراچی پولیس میں روڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ میں اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے دوست علی سہاگ کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کالج سے فراغت کے بعد میرے سارے قریبی دوست سی ایس ایس، کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا اور پڑھائی میں اتنا شارپ نہیں تھا۔ سی ایس ایس کرنے کے لیے جو محنت اور مستقل مزاجی چاہیے وہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ لیکن میں سوچتا تھا کہ جب یہ لوگ افسر بن جائیں گے۔ تو کیا میں ان کے آفس میں چپڑاسی کا کام کروں گا۔ لہذا میں نے بھی محنت کی پی سی ایس کا امتحان پاس کیا اور آج ایک باعزت زندگی گزار رہا ہوں۔
میرے دوستو انسان کی زندگی سیزنز کی طرح گزرتی ہے۔ ابھی گرمیوں کا موسم ہے پھر خزاں، سردی اور بہار کا موسم آئے گا۔ اسی طریقے سے ہماری زندگیوں میں بھی سردی، گرمی، خوشی اور ناکامی ہوتی ہے۔ ہم نے مشکل حالات سے ہی موٹیویشن لے کر باؤنس بیک کرنا ہوتا ہے۔
یہ ہمیشہ سے ہے تقدیر کی گردش کا چلن
چاند سورج کو بھی لگ جاتا ہے اک بار گرہن
دیکھ کر وقت کی رنگینیاں حیران نہ ہو
آدمی وہ ہے جو مصیبت میں پریشان نہ ہو
تو آئیے آج سے مشکل حالات کو اپنی طاقت بنائیں اور زندگی کو نیکسٹ لیول پر لے کر جائیں۔
اور جو لوگ بہت زیادہ حسّاسیت کا شکار ہیں، یا چھوٹی چھوٹی باتوں پر دل ہار جاتے ہیں، اُن کے لیے نوشی گیلانی کا پیغام اس خوبصورت شعر کی صورت میں
موم کا بدن لے کر، دھوپ میں نکل آنا
اور پھر پگھلنے میں، دیر کتنی لگتی ہے؟