Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Ferozabad Police Station Mein Aik Din

Ferozabad Police Station Mein Aik Din

فیروز آباد پولیس سٹیشن میں ایک دن

آج اپنے ماضی کے دنوں میں سے ایک یادگار واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ ایف۔ ایم ریڈیو سٹیشن پر مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے میں ایک انٹرویو دینے جا رہا تھا۔ بھلے دنوں کی بات ہے میرے پاس موٹر سائیکل تھا اور انٹرویو کی مناسبت سے میں نے پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا۔

میں شاہراہِ قائدین پر طارق روڈ کے سگنل کے قریب تھا کہ اچانک سے تیز بارش شروع ہوگئی۔ ایک درخت کے نیچے میں نے اپنی بائیک روک لی اور بھی لوگ وہاں بارش تھمنے کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ درختوں کے پتوں سے پھر بھی کچھ بوندیں نیچے گر رہی تھیں جس کی وجہ سے کپڑے گیلے ہو رہے تھے۔

کچھ رکشہ ڈرائیورز بھی وہاں کھڑے ہو گئے ایسے ہی ایک خالی رکشے کے اندر جا کر میں بیٹھ گیا تاکہ بارش کے پانی سے محفوظ رہوں۔ اب بارش رکنے کا نام نہ لے اور میرا انٹرویو کیونکہ براہ راست نشر ہونا تھا اس لیے میں پریشان ہو رہا تھا کہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں میرے دماغ میں خیال آیا کہ میں اپنی بائیک یہیں پارک کر دیتا ہوں اور اسی رکشے میں ریڈیو سٹیشن چلا جاتا ہوں۔

ٹائم پر پہنچ جاؤں گا اور بھیگنے سے محفوظ رہوں گا۔ ریڈیو سٹیشن وہاں سے صرف چار کلومیٹر دور تھا۔

رکشے والے سے بات کی تو وہ تیار ہوگیا اور اس نے کہا کہ آپ بائیک کہاں چھوڑ کر جاؤ گے۔ میں نے کہا کسی دکان کے باہر کھڑی کر دیتا ہوں اس نے کہا اس طرح تو رسک ہے آپ اس کو کسی کے حوالے کرکے جاؤ وہ رکشے سے اتر کر دکانوں کی طرف گیا اور وہاں سے ایک چوکیدار کو لے کر آیا میں نے بائیک پارک کی چوکیدار سے نام پوچھا اس نے کہا میں عشاء تک یہاں موجود ہوتا ہوں آپ اپنی بائیک واپس آ کر لےلینا اس وقت دوپہر کے ڈھائی بجے ہوئے تھے۔

میں رکشے پر ریڈیو سٹیشن پہنچا سڑکیں پانی سے بھری ہوئی تھیں میرا لباس بھی اچھا خاصا بھیگ گیا تھا لیکن میں خوش تھا کہ کمٹمنٹ پوری کی اور ٹائم پر پہنچ گیا۔ بہت ہی محبت کرنے والے اینکر سہیل سعید خان صاحب کے ساتھ پروگرام کیا۔ پروگرام کے اختتام تک بارش بھی تھم گئی میں نے واپسی پر رکشہ لیا اور اپنا بائیک اٹھانے کے لیے واپس طارق روڈ کے سگنل پر موجود دکان پر پہنچ گیا وہاں جا کر دیکھا تو میری بائیک موجود نہیں تھی آس پاس کے لوگوں سے چوکیدار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس نام کے بندے کو نہیں جانتے میں سمجھا کہ میرے ساتھ فراڈ ہوا ہے رکشے والے نے چوکیدار کے ساتھ مل کر میرا بائیک غائب کر دیا ہے۔

ایک دکان کے باہر کھڑے سیلز مین نے کہا کہ یہاں سے پولیس والے گاڑی اٹھا کر لے جاتے ہیں آپ ان کی چوکی میں جاؤ زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ آپ کا بائیک ان کے پاس ہوگا اور وہ غیر قانونی پارکنگ کے جرمانے کی فیس لے کر آپ کو بائیک لوٹا دیں گے۔

پولیس چوکی نرسری کے مین پل کے نیچے تھی میں پیدل وہاں تک پہنچا میرا بائیک وہاں نہیں تھا۔

وہاں موجود چوکی انچارج نے بتایا کہ آپ اپنی بائک پارک کرنے کی جو جگہ بتا رہے ہیں وہاں سے بائکس دوسری چوکی والے اٹھاتے ہیں جو طارق روڈ کے دوسرے کونے میں ہے۔

میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا وہ اپنا موٹر سائیکل لے کر آ گیا اور ہم دونوں اس کی بائیک پر دوسری پولیس چوکی کی طرف چل پڑے۔

وہاں پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ بارش کے دنوں میں ہم گاڑیاں نہیں اٹھاتے اور دوپہر سے ہم نے لفٹر سے کوئی گاڑی نہیں اٹھائی میں نے انچارج سے پوچھا پھر اب کیا کریں انہوں نے کہا آپ فوری طور پر فیروز آباد تھانے میں جا کر ایف آئی آر کٹوائیں۔

اس ساری بھاگ دوڑ میں تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگ گیا تھا تھکن اور پریشانی کے عالم میں ہم تھانہ فیروز آباد پہنچے پہلی بار میں یہاں آیا تھا بلڈنگ کافی کشادہ تھی اور بہت سے پریشان حال لوگ وہاں اپنے مسائل کے ساتھ موجود تھے مغرب کی اذانوں کا وقت ہوا چاہتا تھا اندر موجود سپاہی سے پوچھا کہ ایس ایچ او سے ملنا ہے اس نے اشارے سے ہمیں بتایا کہ وہ سامنے برآمدے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں میں اپنے دوست کے ساتھ ان کے پاس گیا ہماری باری آنے پر میرا نام پوچھنے کے بعد انہوں نے مسئلہ پوچھا میں نے بائیک کی گمشدگی کے بارے میں بتایا ان کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ صبح سے مستقل کام کرنے کی وجہ سے تھکن کے آثار ہیں بات چیت کے دوران پوچھا کہ ثاقب صاحب آپ کیا کام کرتے ہیں میں نے جواب دیا میں یونیورسٹیز میں پڑھاتا ہوں اور میرے دوستو یہ جاننے کے بعد کہ ان کے سامنے ایک استاد بیٹھا ہوا ہے ان کا سٹائل تبدیل ہوگیا باڈی لینگویج میں چستی آگئی ایف آئی آر نوٹ کی گئی۔

پھر انہوں نے طارق روڈ پر موجود پولیس موبائل میں موجود اے ایس آئی قربان علی کو فون کیا ہمیں کہا کہ آپ لوگ اس جگہ پہنچیں جہاں سے بائیک غائب ہوئی ہے پولیس کی موبائل میں وہاں بھیج رہا ہوں ہم وہاں پہنچے پانچ سات منٹ کے بعد موبائل بھی آگئی پولیس کے جوانوں کو دیکھ کر دکاندار بھی تعاون کرنے لگے کیمرہ ریکارڈنگ دیکھنے کی بات ہوئی پچھلی گلیوں میں نظر دوڑائی گئی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ چور نے بائیک کہیں پیچھے کھڑی کر دی ہو کہ وہ رات کو یہاں سے اٹھا کر لے جائے۔

پندرہ سے بیس منٹ ہم علاقہ دیکھتے رہے اور اسی دوران انکشاف ہوا کہ میں نے اپنی بائیک وہاں سے کوئی دو سو میٹر دور پارک کی تھی اور وہ وہیں موجود تھی چوکیدار بھی وہیں تھا تیز بارش اور جلد بازی کی وجہ سے میں پارک کرتے ہوئے دکان کا نام نوٹ کرنا بھول گیا اور واپس آ کر اس سے تھوڑی دور موجود دکانوں کے قریب اپنی بائیک ڈھونڈتا رہا پولیس موبائل پر موجود نوجوانوں نے مجھے مبارک باد دی اور وہاں سے چل دیے۔

میں نے آ کر یہ ساری سٹوری جب اپنے سرکل میں سنائی تو پولیس والوں کی اس فرض شناسی پر سب حیران رہ گئے میرے ایک دوست نے کہا تم نے یقیناََ ایس ایچ او کو بتایا ہوگا کہ تم صحافی بھی ہو کالم لکھتے ہو کسی سے فون کروایا ہوگا میں نے کہا یہاں تک بات پہنچی ہی نہیں انہوں نے میری عزت صرف استاد ہونے کی حیثیت سے کی۔

یقیناََ اس ایس ایچ او کی تربیت میں بھی کسی استاد کا اہم کردار ہوگا کہ وہ آج بھی ایک اجنبی شخص کو استاد ہونے کی نسبت سے عزت دے رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ استاد ساری زندگی لگا کر اپنا جنازہ اکٹھا کرتا ہے۔ صرف یہ ایک ایس ایچ او نہیں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں فرض شناس لوگ ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں ان کے کام کو سراہنے کی ضرورت ہے زیادہ تر جوان اپنی فیملی سے دور، لانگ ورکنگ آورز، چھٹی کے دنوں میں بھی کام اور پبلک کی گالیاں۔

ایس ایچ او کا نام میں نہیں لکھ رہا ان کی ٹیم اور پولیس کے تمام ایماندار ساتھیوں کو پاکستان کے اساتذہ کی طرف سے سلام اور ڈھیروں دعائیں۔

کالم کو ختم کرتے کرتے مائنڈ سائنس کو بیچ میں لے کر آتے ہیں۔

انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے جب بارش شروع ہوئی تو میرے ذہن میں فوری طور پر خیال آیا کہ میں فون کرکے معذرت کر لیتا ہوں کراچی والے جانتے ہیں کہ پندرہ بیس منٹ کی بارش کے بعد بھی سڑکوں پر موو کرنا آسان نہیں ہوتا اور ریڈیو پر انٹرویو لینے والے اس بات کو سمجھتے ہیں۔

بعد میں پہنچ جانے پر پوچھا کہ اگر میں نہیں آتا تو آپ کیا کرتے جواب ملا کہ کسی پرانے پروگرام کی ریکارڈنگ چلا دیتے۔

قدرت کی طرف سے یہ خیال مستقل میرے دماغ میں آتا رہا لیکن میں نے کہا میں کمٹمنٹ پوری کروں گا اور پھر یہ سارا ماجرہ پیش آیا۔

میں نے اس واقعے سے کیا سیکھا کہ اتنا بھاری پتھر نہ اٹھاؤ کہ کمر دہری ہو جائے اور تیر کر اتنی دور نہ جاؤ کہ واپس آنا مشکل ہو جائے جب میں تھانے میں ایف آئی آر لکھوا رہا تھا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ کیا میں کل صبح جا کر نیا موٹر سائیکل اپنے پاس موجود سیونگ میں سے لے سکتا ہوں جواب آیا نہیں۔

میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ بھائی پھر یہ رسک لینے کی کیا ضرورت تھی؟

پرنسپل یہ نکلا کہ خطرہ اتنا مول لیا جائے جو آپ برداشت کر سکیں۔

کمٹمنٹ پوری کرنے کے نام پر اپنے آپ کو مسائل میں نہ دھکیلا جائے پرنسپل اور ضابطے اس شخص کو زیب دیتے ہیں جو مضبوط ہو۔ جس کے بینک اکاؤنٹ میں ایک آدھا کروڑ موجود ہو اور وہ ڈیڑھ دو لاکھ کا نقصان آسانی سے برداشت کر سکتا ہو۔

میرے جیسے پرانے خیالات کے مالک شخص کے لیے یہ لکھنا مشکل تھا لیکن دوستو یہ زندگی کی سچائی ہے۔

سادگی میں جان دے بیٹھے ہزاروں کوہ کن
آدمی پوچھے تو ایسی سادگی بھی جرم ہے

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a Mental Health Consultant with over a decade of experience in hypnotherapy, leadership development, mindfulness and emotional intelligence.

He is also a seasoned writer, having authored over 150 columns and a renowned book. Alongside his work as a corporate trainer, he actively researches, compiles and documents the success stories of remarkable Pakistani personalities through the lens of Mind Sciences.

If you know someone with an inspiring story worth sharing, you can refer them to him. Muhammad Saqib will personally interview them to document their journey.

For Mind Sciences Consultation and Sales Training, you can reach him via WhatsApp at 0300-9273773.

Check Also

Desan Da Raja

By Syed Mehdi Bukhari