Chaprasi Se Arab Pati Tak (2)
چپڑاسی سے ارب پتی تک (2)
کمبائن گروپ کے چیئرمین محمد امین ناتھانی کی زندگی کی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں پچھلے کالم کے اختتام پر ہم نے ڈسکس کیا کہ کامیابی کی اس معراج تک پہنچنے کے لیے سات طلسمات کا سفر عبور کیا ان کو ہم یہاں پر بیان کریں گے نوجوانوں اور کاروباری حضرات کے لیےطلسمات کا یہ سفر آج 2024 میں کامیابی کے سات پروٹوکولز کی صورت میں ان کو گائیڈنس مہیا کرے گا۔
امین صاحب نے 1986 میں کمبائن گروپ کی بنیاد ایک چھوٹے سے کارخانے کی صورت میں رکھی۔ اگلے نو سال جدوجہد کے تھے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے اپنا گھر بھی بیچنا پڑا اس مشکل وقت میں ان کی والدہ کا کردار مثالی تھا ایک مینٹور اور رول ماڈل کی طرح انہوں نے امین صاحب کی تربیت کی۔
گفتگو کے دوران بتایا کہ میں نے مشکل وقت میں ہمت سے کام لینے کا فن اپنی والدہ سے ہی سیکھا زبان پر شکر گزاری گویا کہہ رہی ہوں
مایوسی کو کبھی راستہ نہ دینا
اگر دے دیا تو تمہیں اپنا پھلوں سے لدا ہوا باغ
بھی ویران اور اجاڑ نظر آئے گا۔
سخت محنت کے ساتھ صلہ رحمی کی صفت ان کی والدہ کا خاصہ ہے کھلا دسترخوان اور پوری فیملی کو جوڑ کر رکھنا۔ اپنی والدہ سے سیکھے ہوئے پرنسپل آج ان کو گلوبل لیول پہ ٹیم میکنگ کرتے ہوئے کام آتے ہیں مشکل وقت میں زبان پر شکر گزاری ہونٹوں پر مسکراہٹ وسیع دسترخوان اور پیروں میں استقامت یہ پہلا طلسم تھا جو امین صاحب نے کامیابی سے عبور کیا۔
ان کی دوستی اپنے لینڈ لارڈ سے تھی عمر میں وہ صاحب ان سے بڑے تھے لیکن کلاسیکل موسیقی کا شوق ان دونوں میں کامن تھا سی ڈیز کا دور تھا ہر روز رات میں ان کے گھر پہنچ جاتے پرانے گلوکاروں کو سنا جاتا بزنس آئیڈیاز بھی ڈسکس ہوتے اور ان کے گھر پر اور بھی کاروباری لوگوں سے ملاقات ہوتی انہی ملاقاتوں کے نتیجے میں انہیں پلاسٹک کا کام کرنے کے لیے جدہ اور مڈل ایسٹ جانے کا موقع ملتا ہے۔ اسے ہم آج کے دور میں پاور آف ایسوسی ایشن کہتے ہیں محترم دوستو آپ کا اٹھنا بیٹھنا کن لوگوں میں ہے۔
بات کرنے کی اہمیت پر زور دیا انہی سٹرگل کے دنوں میں مڈل ایسٹ میں ہوئی ایک کاروباری ڈیل کے بارے میں بتایا پاکستانی کاروباری لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ امین صاحب منسلک تھے ایک کارخانے کو خریدنے کی بات چیت ہو رہی تھی کیش کی کمی کی وجہ سے یہ ڈیل فائنل نہیں ہو رہی تھی۔ امین صاحب اس گروپ کے جونیئر اور کم عمر لوگوں میں شامل تھے انہوں نے کہا کہ میں کارخانے کے مالک لقمان شاہ سے بات کرتا ہوں ان کے پاس موجود کیش لقمان شاہ کی ڈیمانڈ کی ہوئی رقم کے ہاف سے بھی کم تھا اس کے پاس جاتے ہیں اور حیران کن طور پر اتنی کم رقم میں اس ڈیل کو فائنل کرتے ہیں۔ یہاں سے ان کی دو خوبیاں سامنے آتی ہیں ایک تو بات چیت ڈیل کلوز کرنے کی مہارت اور دوسری آرٹ۔
آف آسکنگ
بھلے وقتوں میں جب ہمارے گاؤں میں دینے کا، بانٹ کر کھانے کا رواج تھا
اس دور کا نوجوان ہانڈی پر جھکی ہوئی اپنی ماں سے پوچھتا ہے۔
"بے بے آج کیا چاڑھا ہے کیا پکایا ہے؟
وہ سر اٹھا کر کہتی "پتر ٹینڈے ہیں بہت نرول"
نہیں بے بے"۔ وہ جوان بچوں کی ماند روٹھ جاتا۔
"میں نے ٹینڈے نہیں کھانے"۔
اس انکار کے بعد بے بے فوری طور پر اس اندھیاری گرم رات میں آس پاس کے جتنے بھی کو ٹھے آباد تھے ان سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں سوال کرنے لگتی ہے کہ بہن آشاں بی بی کیا پکایا ہے۔۔ صغراں۔۔ نی پھاتاں۔۔ رحمتے۔۔ بھاگاں اور ادھر سے جواب آنے لگتے چاول ہیں گڑ والے ان میں کشمش اور ناریل بھی ہے۔۔ چنے کی دال ہے۔۔ تندوری پر اٹھے ہیں۔۔ باتھو کا ساگ ہے۔۔ گنے کے رس کی کھیر ہے۔۔ توریاں ہیں۔
پورے گاؤں کا مینو سامنے آجاتا اور وہ نوجوان ان میں سے کسی ایک خوراک کا چناؤ کر لیتا اور اگلے لمحے وہ خوراک کوٹھوں پر سے سفر کرتی اس تک پہنچ جاتی اور اس طریقے سے لاشعوری طور پر پورے گاؤں کی آرٹ آف آسکنگ (Art of Asking) کی ٹریننگ ہو جاتی ہے۔
ہاورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ بتاتی ہے کہ صرف 30 فیصد بزنس ایسے ہوتے ہیں جو 10 سال کے بعد بھی قائم رہتے ہیں امین صاحب بھی جمے رہتے ہیں اس فیز کو پاکستان کے مشہور بزنس مین محمد تسلیم رضا ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔۔
کمہار کے چاک پر گردش کرتی ہوئی عام سی مٹی
اور اس سے بنتے ہوئے بہترین برتن
ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ جو گردش ایام ہیں
یہ ہمیں خاکی پتلے سے
ایک کار آمد انسان بنانے کے لیے ہے۔
آج سے تقریبا 19 سال پہلے چائنا آتے ہیں ٹیکسٹائل کے بزنس سے وابستہ ہوتے ہیں اور گویا کمال کر دیتے ہیں امین صاحب نے ملائشیا میں کمپنی بنائی ہانگ کانگ چائنا اور پاکستان میں ان کی کمپنی موجود ہے گوادر میں انڈسٹری اور ہائی رائز بلڈ نگز بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس سلسلے میں زمین خریدی ہوئی ہے اور ملک کے حالات بہتر ہونے کا انتظار ہے گوادر کا پروجیکٹ ہی ہزاروں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
چائنیز بزنس مین کو پاکستان کا دورہ کرواتے رہتے ہیں اس سلسلے میں بتایا کہ چائنا میں ٹیکسٹائل کے سب سے بڑے گروپ کے لوگوں کو پاکستان کا دورہ کروایا کراچی میں یہ لوگ ایئرپورٹ کے احاطے میں ہی کچھ گھنٹے انتظار کرتے رہے ان کے لیے بلٹ پروف گاڑی کا بندوبست کیا گیا اور اس کے بعد انہوں نے شہر کا دورہ کیا اس طرح کی مشکل کنڈیشن میں سرمایہ دار عدم تحفظ محسوس کرتا ہے۔
امین صاحب نے چائنا میں پاکستان پویلین کی بنیاد ڈالی جو دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ پاکستانی کونصلیٹ کے کردار اور تعاون کی تعریف کی کمبائن کنسلٹینسی کے نام سے پاکستان میں ایک ادارہ بنایا جو چائنا کے کاروباری لوگوں کو معاونت فراہم کرتا ہے۔
کرونا کے دنوں میں کراچی میں آرگینک فارم ہاؤس کی بنیاد ڈالی کچھ سال وہیں گزارے نیچر کے قریب رہے چونکہ وژنری آدمی ہیں اس لیے اس دوران پاکستان میں ایگری ٹور ازم کی بنیاد رکھنے والے طارق تنویر سے دوستی ہوئی انہوں نے کہا ثاقب بھائی یہ شخص اتنی تخلیقی صلاحیتیں رکھتا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اگر طارق تنویر پھلوں کی کسی ریڑھی پر کھڑا ہو تو اسے بھی فیسٹیول بنا دے اس شخص نے پاکستان کے مختلف شہروں میں مینگو فیسٹیول ایپل فیسٹیول اور گڑ میلہ کی بنیاد رکھی اسی کانسیپٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے امین صاحب نے پاکستان کے پہلے ایگری ٹورازم چیمبر کی بنیاد رکھی ایونٹس اور فیسٹیولز کو بہت بڑا اکانومی سورس قرار دیا۔
لاہور کے بسنت میلے کی بات کی کہ اس کی پراپر مارکیٹنگ کرکے اکانومی کو سہارا دیا جا سکتا تھا۔
آپ زندگی کی 50 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں اس عمر میں ابھی ہر روز 10 کلومیٹر واک کرتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
میں نے پوچھا آپ کی کامیابی کی پنچ لائن کیا ہے جواب دیا میں اپنے سے پہلے اپنے کسٹمر کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اس کو میں جو چیز بیچ رہا ہوں یا مشورہ دے رہا ہوں اس کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔
اسی سوال کو کنیکٹ کرتے ہوئے پوچھا کہ کوئی شخص جاب میں گرو کرنا چاہے تو کیا کرے اپنی ذاتی مثال سے بتایا کہ جاب کو بزنس کی طرح کیا جائے ذمہ داری لی جائے تو نئی منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔
امین صاحب نے کمبائن فاؤنڈیشن کے نام سے پاکستان میں ایک ادارے کی بنیاد رکھی ہے جو ایجوکیشن اور ہیلتھ کے شعبوں میں کام کر رہی ہے مستقبل میں اپنا وقت کاروباری کاموں سے نکال کر فاؤنڈیشن کے لیے وقف کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اپنی ٹیم کو تیار کر رہے ہیں اور فیوچر میں اپنے بزنس کو بحیثیت منٹور کرنے کی خواہش رکھتے ہیں نئی کمپنیوں اور لوگوں کو ڈیجیٹل بنیادوں پر اپنا بزنس ترتیب دینے کی اہمیت پر زور دیا ان کا عزم جوان ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
اور آخر میں امین صاحب کی شخصیت میں موجود نرمی اور عاجزی کی اہمیت کو بیان کرتی ہوئی یہ چھوٹی سی بات
پوتا دادا جان آپ کے دانت کدھر گئے؟
دادا
بیٹا بڑھاپے کی وجہ سے ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے۔
پوتا مگر دادا جان! آپ کی زبان بھی تو بوڑھی ہے۔
زبان کی عمر بھی اتنی ہے جتنی
دانتوں کی؟
دادا جان نے توقف کیا اور کہا:
بیٹا، دانت اپنی اکڑ اور سختی کی وجہ سے ٹوٹ گئے اور
زبان اپنی نرمی کی وجہ سے آج بھی قائم ہے۔
انسان کی راحت اس کی زبان کی
حفاظت میں ہے۔
(جلال الدین رومی)