Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Allah Ko Khat Likhne Ki Sachi Kahani

Allah Ko Khat Likhne Ki Sachi Kahani

اللہ کو خط لکھنے کی سچی کہانی

پچھلے ہفتے پورٹ لینڈ امریکہ سے آۓ اپنے ایک دوست افتخار صاحب کے ساتھ ایک خوبصورت نشست ہوئی۔ ہم چار دوست چائے پر اکٹھے ہوئے افتخار صاحب نے بتایا امریکہ میں زندگی کا تیز رفتاری سے گزرنا، وہاں بھی مہنگائی کا ہو جانا اور خاص بات وہاں کے لوگوں کا بھی ڈپریشن، انگزائٹی اور سٹریس کا شکار ہونا۔

افتخار بھائی ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ ہیں۔ مستقل محنت کے عادی ہمت نہ ہارنا اور ہمیشہ ایک سٹرانگ وائبز کے ساتھ کام کرنا، یہ ان کی پہچان ہے۔ سرٹیفائیڈ hypnotherapist اور مائنڈ سائنس ایکسپرٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سارے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔

اس ملاقات کے دوران بڑے ہی دلچسپ قصےسنائے انہوں نے، اپنی زندگی کے، مینٹل ہیلتھ لائف کوچنگ کے حوالے سے اور اس میں ایک دلچسپ کہانی جو انہوں نے سنائی تھی وہ 2020کی تھی۔ وہ سچی اور انتہائی دلچسپ کہانی میں شیئر کرتا ہوں آپ کے ساتھ۔

افتخار بھائی بتاتے ہیں کہ ان کی گورنمنٹ جاب کے دوران میں ایک کولیگ کا رشتہ طے ہوا۔ اور ایک دن اس کے ہونے والے سسر اس سے ملنے آتے ہیں اور گھر کا جائزہ لیتے ہیں اور اس شخص جس کا نام محمود تصور کر لیتے ہیں۔ اس سے پوچھتے ہیں محمود آپ شادی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ کہا رہو گے اس پورے گھر میں تو ایک ہی کمرہ ہے؟ اور ساتھ ہی ان کو مالی حیثیت کا اندازہ بھی تھا۔ اپنےہونے والے داماد کو ایک پیشکش کی کہ میں آپ کو صحن میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنوا دیتا ہوں جہاں آپ لوگ رہ سکتے ہو۔

محمود صاحب کا اپنے ہونے والے سسر کی بات سن کر چہرہ اتر جاتا ہے، جیسا کہ وہ ایک سفید پوش شخص تھے اور ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ جس میں ایک ہی کمرہ ایک برآمدہ اور ایک چھوٹا سا صحن تھا۔ بلا شبہ محمود صاحب انتہائی شریف اور خوددار انسان تھے۔ اس لیے انہوں نے سسر کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور ان سے کہا کہ میری خودداری کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ میرے لیے کمرہ تیار کروائیں۔ میں اپنا کمرہ خود تیار کرواؤں گا۔

ان کی یہ بات سن کر بزرگ وہاں سے چپ چاپ روانہ ہو گئے۔ ان کے جانے کے بعد محمود صاحب نے جب اپنی جیب کو ٹٹولا، اپنی جمع پونجی کو کھنگالہ، ان کو بہت شدت سے احساس ہوا کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے کمرہ بنوانے کے اہل ہو سکیں۔ اگر ہم 2023 میں بھی ایک چھوٹا سا کمرہ بنوانے کے لیے اخراجات کا اندازہ لگائیں تو کم از کم 70 ہزار سے ایک لاکھ تک کی رقم درکار ہوگی۔

کچھ دیر کے لیے تو محمود صاحب انتہائی گہری سوچ میں پڑ گئے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ان کے دماغ میں انتہائی اچھوتا اور انوکھا خیال آیا۔ انہوں نےکاغذ قلم اٹھایا اور ایک خط لکھنا شروع کر دیا اور وہ خط تھا اللہ تبارک و تعالی کے نام۔

جی ہاں! انہوں نے کہا کہ میں اور کس سے مانگوں؟

جس سے مانگ کر میری عزت نفس بھی مجروح نہ ہو میری خودداری کا بھی بھرم رہ جائے۔

ان کے خط کی تحریر کا آغاز ہی اسی بات سے تھا کہ میری شادی ہونے والی ہے اور مجھے ایک کمرہ بنانا ہے مجھے اس کمرے کی تعمیر کے لیے تمام تر اخراجات مہیا کیے جائیں۔

یہاں تک تحریر کرنے کے بعد ان کو خیال آیا کہ جب میں اللہ سے مانگ رہا ہوں تو کیوں نہ وہ ساری چیزیں بھی مانگ لوں جو میری ضروریات ہیں یا خواہشات ہیں۔ تو انہوں نے وہ ساری خواہشات اسی خط میں لکھ دیں اور پھر اس خط کو سنبھال کر رکھ دیا۔ ایک عرصے بعد محمود صاحب نے ایک محفل میں بتایا کہ جو بھی چیزیں اس خط میں، میں نے لکھ رکھی تھی وہ ساری کی ساری مجھے کچھ ہی سالوں بعد میسر ہوگئی۔

تو افتخار صاحب نے محمود صاحب سے پوچھا کہ باقی چیزوں کی تفصیل تو ہم آپ سے بعد میں معلوم کریں گے پہلے یہ بتائیے کہ وہ کمرہ کیسے بنا؟ تو محمود صاحب مسکرائے اور جواب دیا کہ جیسے ہی میں خط لکھ کر فارغ ہوا تو ہمارے عزیز گھر آئے اور کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کی شادی ہونے والی ہے۔ مجھے کچھ پیسے دیے اور کہا کہ یہ رقم ہماری طرف سے اپنی شادی کے تحفے میں قبول کر لیں۔ اسی طرح صبح، شام کوئی نہ کوئی عزیز آتا رہا اور تحفے میں پیسے دے کے جاتا رہا لوگ پیسے اٹھا کر مجھے ڈھونڈ رہے تھے وہ مجھے دے رہے تھے۔ اس طرح میرے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہوگئی۔ جس میں میرا کمرہ بھی آرام سے بن گیا اور باقی معاملات بھی شادی کے سفید پوشی کے ساتھ خیر و خوبی سے انجام پا گئے۔

یہ کہانی 2020 میں بھی ان سے سنی تھی تب میں نے بھی فیصلہ کیا کہ میں بھی اللہ تعالی کو خط لکھوں گا ابھی میں ایک ورک شاپ پلان کر رہا ہوں vision 2024 کے نام سے۔ مجھے اپنی پرانی ڈائری میں اسے وہ پرانا خط بھی ملا جس میں، میں نے اپنی چند خواہشات تحریر کی تھیں اس خط کو دوبارہ پڑھ کے مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے اس میں جتنی بھی اپنی خواہشات لکھیں تھیں زیادہ تر ان تین سالوں میں پوری ہو چکی ہیں۔

میرے دوستو!

آپ کو بھی جو کچھ چاہیے وہ کون دے گا؟ بے شک عطا کرنے والی ذات اللہ تبارک و تعالی کی ہی ہے۔ جس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ جس کے دینے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جو ہمارا خالق ہے اور اس ساری کائنات کا اکیلا تن تنہا مالک ہے۔ جو خوش ہوتا ہے اس بات سے کہ اس سے مانگا جائے۔

تو کیوں نہ ہم بھی اللہ تعالی کو خط لکھیں اور جو کچھ ہمیں چاہیے ہم اس خط میں لکھ ڈالیں۔ تو میں بھی سوچ رہا ہوں اپنا اگلا خط لکھ لوں۔ میں اس خط میں اپنے آئندہ زندگی اور بالخصوص 2024 میں میرے جو بھی مقاصد، ہداف اور گولز ہیں وہ سب لکھوں گا۔

آپ لوگ بھی اللہ تبارک و تعالی کو خط لکھیں اور کوشش کریں کہ آپ وہ خط آج ہی لکھ لیں چاہے وہ کسی بھی زبان میں لکھیں اردو، پنجابی، انگریزی، سندھی، بلوچی، سرائکی، کشمیری یا پشتوکسی بھی زبان میں لکھیں۔ اور پھر کمال دیکھیں کہ وہ خط کس طرح سے آپ کی زندگی کو بدل دے گا۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Phool Aur Kante

By Muhammad Irfan Nadeem