Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ishtiaq
  4. Dharnay Ke Mumkina Nataij

Dharnay Ke Mumkina Nataij

دھرنے کے ممکنہ نتائج

11مئی کے الیکشن کے بعد جب تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے نتائج کو مشروط طور پر تسلیم کیا اور نئے سسٹم نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ہر صوبے میں اسی جماعت نے حکومت بنائی جس کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ بلوچستان میں اگرچہ مالک صاحب کی پارٹی کی وہ مقبولیت نہیں تھی لیکن قبیلوں میں بٹے اس صوبے میں مسلم لیگ ن نے اپنا وزن مالک صاحب کی جماعت کے پلڑے میں ڈال کر ایک اچھا فیصلہ کیا۔

نئے نظام نے ابھی اپنے آپ کواسٹیبلشبھی نہ کیا تھا کہ دھاندلی پہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایک مہم کا آغاز ہوا۔ انتخابات میں علاقائی حد تک دھاندلی کی شکایات بہت زیادہ موجود تھیں اور تقریباً ہر سیاسی جماعت نے کیں بشمول مسلم لیگ، پی پی پی، جماعت اسلامی۔ الیکشن کمیشن ٹریبونل نے درجن بھر سے زیادہ سیٹوں کے نتائج کو تبدیل بھی کیا اور ہارے ہوئے امیدواروں کے حق میں فیصلے دئیے۔ لیکن پی ٹی آئی کی مہم کی خاص بات "منظم دھاندلی" تھی۔ وہ اس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ان کے "کلین سویپ مینڈیٹ" کو چرا لیا گیا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر انہوں نے پورے ملک میں جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومت پہ دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔ ان کی یہ حکمت عملی کافی کارگر ثابت ہو رہی تھی۔ رائے عامہ دھاندلی کے خلاف ہموار ہو رہی تھی اور کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے اختلاف رائے نہیں کر رہی تھی۔

اس موقع پر پی ٹی آئی نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو ان کی نظرمیں ایک تاریخی فیصلہ تھا اور جس نے پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرنا تھا اور وہ فیصلہ تھا "آزادی مارچ "اور "دھرنا "۔ عمران خان کو یہ فیصلہ کرنے پہ کس نے آمادہ کیا۔ یہ موضوع زیر بحث نہیں، بھلے آمادہ کرنے وہ فوج کے لے پالک ہوں یا فوج کے رائندہ درگاہ۔ فیصلے کا اختیار بہرحال عمران خان کے پاس تھا اور وہ اپنی روایات کے مطابق صحیح یا غلط کی زمہ داری لیتے ہیں اور اس پر آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں جس کا کریڈٹ بہرحال ان کو جاتا ہے۔

عمران خان کی امیدوں کے برعکس وہ لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں موبلائز نہیں کرسکے۔ ان کی نا امید ی مقررہ وقت سے زیادہ لاہور میں مٹر گشت اور پھر گجرانوالہ میں ضرورت سے زیادہ قیام سے عیاں ہے۔ شاید ان کو کسی نقال نے یہ بتایا ہو کہ ہر مارچ کا فیصلہ گجرانوالہ میں ہی ہوا کرے گا۔ پر گجرانوالہ بھی ان کے لیے بے برکت ثابت نہ ہوا اور انہیں مجبوراً اسلام آباد آنا پڑا۔ یہاں دھرنے کی رونق "کے پی کے "والوں نے خوب لگائی۔ اوردھرنا اس سے بھی زیادہ با رونق ہوجا تا اگر خان صاحب راستے میں ٹائم ضائع کرنے کے بجائے جلد اسلام آباد پہنچتے یا پھر "کے پی کے" سے آئے ہوئے لوگوں کو یہاں روکنے کا کوئی بندوبست کرتے جو 24گھنٹے کے بعد واپس جانا شروع ہوگئے تھے۔ اسلام آباد پہنچ کر خان صاحب کو احساس ہوا کہ واقعی دھرنا دینا پڑے گا۔ امیدیں تو راستے میں ہی مان جانے کی تھیں اب دھرنے کے انتظامات کے بارے میں سوچنا پڑ گیا۔ اور ہر روز ایک نئی حکمت عملی لائی گئی۔ جن میں سول نافرمانی جیسی عقل و فہم سے بالاتر ایکشن، اور پھر ریڈ زون سے بھی آگے بڑھنے کی خود کشی بھی شامل تھی۔ اسی درمیان استعفےٰ بھی دئیے گئے جس کو"صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں " کے زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔

اسی گومگوں کی کیفیت میں اپنے باغی سےبھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جو کبھی ان کے سینے کا تمغہ تھا۔ لیکن خان صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے ووٹر کی زہنیت کے مطابق دھرنے کو قائم رکھنے کا ایک حل ڈھونڈ نکالا اور فنون لطیفہ کی خدمت کافریضہ انجام دینے لگے۔ یہ حکمت عملی پچھلے 80 دن سے بنائی جانے والی حکمت عملیوں میں سے بہترین ثابت ہورہی ہے۔

مذاکرات اب بے معنی دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس پہ مہر پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دوسرے شہروں میں ہونے والے جلسے ثبت کر رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو مہم دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی تھی اور جس پہ انیس بیس کے فرق کے ساتھ ہر سیاسی جماعت کااتفاق تھا۔ اس کے لیے یہ دھرنا کس حد تک مفید ثابت ہوا؟

کیا دھاندلی کا معاملہ پس منظر میں نہیں چلا گیا؟ وہ جذبہ اور وہ اتفاق جس سے ہم اس سسٹم کی بہتری کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ وہ "گونواز گو "پہ لے جا کر اپنی انا کی تسکین نہیں کر رہے؟ بجائے اس کے آپ اس کو پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال کرتے اوراپنے مقصد پر نظر رکھتے تو یقیناً نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔ لیکن کرکٹ کے اس عظیم کپتان کو کون سمجھائے کہ کرکٹ کے میدان میں میچ کھیلا جاتاہے۔ میچ کے دوران دھرنا دے کر آپ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سے استعفیٰ نہیں مانگ سکتے اس کے لیے آپ کو الیکشن لڑنا پڑتا ہے۔ آپ نے اپنا فوکس لوز کیا ہے۔ مقصد دھاندلی سے پاک سسٹم لاناتھا۔ پر آپ نے اسے اپنی خواہشات کی تکمیل اور انا کی تسکین کا ذریعہ سمجھا۔

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan