Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Hamza Ali
  4. Sindh Corruption Ki Nazar

Sindh Corruption Ki Nazar

سندھ کرپشن کی نظر

پاکستان کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک، کراچی اور سب سے زرخیز خطوں میں سے ایک، سندھ، جنہوں نے اس ملک کی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کیا، آج بدترین کرپشن کا شکار ہیں۔ سندھ، جو مہران کی زمین کہلاتا ہے، جہاں کبھی علم، تہذیب اور ثقافت کا چرچا تھا، اب وہاں لوٹ مار، اقربا پروری اور بدعنوانی نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔

سندھ میں کرپشن کوئی نیا معاملہ نہیں۔ لیکن جس شدت سے گزشتہ چند دہائیوں میں یہ ناسور پھیلا ہے، اس نے صوبے کی ترقی، انتظامی ڈھانچے، تعلیمی نظام، صحت کی سہولیات اور عوامی فلاح و بہبود کو مفلوج کر دیا ہے۔ آج سندھ کا شہری ہو یا دیہاتی، ہر شخص اس نظام سے نالاں ہے جو عوام کا نہیں بلکہ مخصوص افراد کا خیر خواہ بن چکا ہے۔

بلدیاتی نظام ہو یا صوبائی حکومت، ہر جگہ مفاد پرستی اور رشوت نے ایسے جال بچھا دیے ہیں کہ کوئی عام شخص انصاف تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ زمینوں پر قبضہ، ترقیاتی منصوبوں میں خورد برد، جعلی بھرتیاں اور سرکاری وسائل کی بندربانٹ ایک معمول بن چکی ہے۔

کراچی، جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، آج گندگی، ٹوٹ پھوٹ اور پانی و بجلی کی قلت کا مرکز بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ صفائی کا نظام، جو ایک بنیادی شہری ضرورت ہے، اسے بھی سیاست اور کمیشن کے کھیل میں الجھا دیا گیا ہے۔ کچرا اٹھانے کے منصوبے ہوں یا نالوں کی صفائی، ہر جگہ کک بیکس اور ٹھیکوں کی سیاست نے عوامی مفاد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

سندھ میں تعلیم کا حال بھی قابل افسوس ہے۔ دیہی علاقوں میں بیشتر اسکول یا تو بند پڑے ہیں یا ان پر بااثر وڈیروں کا قبضہ ہے۔ "گھوسٹ اسکولز" کی اصطلاح سندھ کے لیے خاص ہو چکی ہے، جہاں صرف کاغذوں میں اسکول، اساتذہ اور طلبا موجود ہوتے ہیں، حقیقت میں وہاں کھنڈر یا جانوروں کے باڑے ہوتے ہیں۔ یہی حال صحت کے شعبے کا ہے، جہاں دیہی علاقوں میں اسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیں، صرف سیاسی پوسٹرز نظر آتے ہیں۔

یہ تمام مسائل صرف نالائقی کا نتیجہ نہیں بلکہ بدعنوانی کی پیداوار ہیں۔ ایک طویل عرصے سے سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت نے صوبے کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ بیوروکریسی سیاسی دباؤ کے تحت کام کرتی ہے اور اگر کوئی ایماندار افسر سامنے آ جائے تو اسے یا تو ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے یا نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

سندھ میں کرپشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کا اعتماد حکومتی اداروں سے اٹھ چکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ جب ریاستی ادارے انصاف فراہم نہ کریں تو لوگ یا تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں یا خاموشی سے ظلم سہتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ کیا ہم ہمیشہ یوں ہی مایوسی میں جیتے رہیں گے؟ یقیناً نہیں۔ حل اس وقت ممکن ہے جب عوام باشعور ہوں، جب وہ اپنی طاقت کو پہچانیں۔ ووٹ کا صحیح استعمال کریں، کرپٹ عناصر کو مسترد کریں اور ایسے نمائندوں کو منتخب کریں جو دیانت دار ہوں، قابل ہوں اور جو واقعی عوام کے مسائل سمجھتے ہوں۔

میڈیا، عدلیہ اور سول سوسائٹی کا کردار بھی اہم ہے۔ اگر ان سب اداروں کا دباؤ کرپشن کے خلاف برقرار رہے تو دھیرے دھیرے تبدیلی آ سکتی ہے۔ احتساب کا نظام بلاامتیاز ہو، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، قانون کے شکنجے سے بچ نہ پائے۔

آج سندھ کو ایک نئے عمر بن عبدالعزیز کی ضرورت ہے، جو نہ صرف ایماندار ہو بلکہ جرات مند بھی ہو۔ ایسا لیڈر جو نہ ڈرے، نہ بکے اور نہ جھکے۔ جو سندھ کو اندھیروں سے نکال کر ترقی، خوشحالی اور انصاف کے راستے پر ڈال سکے۔

سندھ کو بچانا ہے تو کرپشن کے خلاف اجتماعی جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ صرف حکومت یا اپوزیشن کی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں یہ جنگ سچائی، قانون اور عدل کے ہتھیار سے لڑنی ہے۔ تبھی ہم سندھ کو "باب الاسلام" کے شایانِ شان بنا سکیں گے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail