Nazuk Mor Aur Pakistan Ka Mojooda Siasi Manzer Nama
نازک موڑ اور پاکستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ

پاکستان کی سیاست اس وقت ایک نازک اور پیچیدہ دور سے گزر رہی ہے، جہاں غیر یقینی صورتحال، عوامی بے چینی اور سیاسی جوڑ توڑ نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ 2024 کے عام انتخابات کے بعد بننے والے سیاسی حالات نے ملک میں موجود تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ معیشت کی بگڑتی حالت، مہنگائی میں اضافہ اور عوامی غصے نے سیاسی قیادت کے کردار کو اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔
موجودہ سیاسی ہلچل کے مرکز میں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے، جو اگرچہ عدالتی مقدمات اور سیاسی پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے، لیکن اس کے حمایتی خصوصاً نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں اب بھی مضبوطی سے موجود ہیں۔ کرپشن کے خلاف بیانیہ اور احتساب کی باتیں اب بھی لوگوں کے دل کو چھو رہی ہیں، چاہے عمران خان قانونی مشکلات میں گھرے ہوئے ہوں۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر مشتمل اتحادی حکومت ہے، جو بظاہر استحکام کی علامت ہے، مگر اندرونی اختلافات اور پالیسیوں میں تضاد اس کی پائیداری پر سوال اٹھاتے ہیں۔ نواز شریف کی واپسی وہ سیاسی توانائی پیدا نہیں کر سکی جس کی ان کی جماعت کو امید تھی، جبکہ بلاول بھٹو زرداری اب بھی پارٹی کو ماضی کے سائے سے نکال کر نئی سمت دینے کی جدوجہد میں ہیں۔
اس وقت ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ عدلیہ اور عسکری ادارے ملک کے سیاسی معاملات میں جس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں، اس نے جمہوری نظام پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ جب غیر منتخب ادارے فیصلہ سازی میں پیش پیش ہوں، تو عوام کا اعتماد کمزور ہوتا ہے اور جمہوریت کی روح متاثر ہوتی ہے۔
ادھر معیشت کی بگڑتی صورتحال ہر سیاسی فیصلے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی اور بیروزگاری نے عوام کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں، جبکہ عام آدمی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہے۔ اب یہ معاشی تکلیف خود ایک سیاسی طاقت بنتی جا رہی ہے، جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
تاہم، اس تمام تر ہنگامہ خیزی کے باوجود، امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ نوجوان نسل کی سیاسی بیداری، آزاد میڈیا کی آوازیں اور بڑھتی ہوئی عوامی شراکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی کا راستہ اب کھل رہا ہے۔ لیکن حقیقی تبدیلی صرف نعروں سے نہیں آئے گی اس کے لیے شفافیت، جوابدہی اور قومی مفاد کو ذاتی یا جماعتی مفادات پر ترجیح دینا ہوگا۔
پاکستان آج ایک سیاسی چوراہے پر کھڑا ہے۔ جو فیصلے آج کیے جائیں گے، ان کے اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ یہ وقت صرف قیادت کے لیے نہیں، عوام کے لیے بھی امتحان ہے کہ وہ کیسا مستقبل چاہتے ہیں جمہوری، پائیدار اور سب کے لیے منصفانہ۔

