Meri Jaan Itni Sasti Nahi
میری جان اتنی سستی نہیں ہے

پاکستان اس وقت ایک بار پھر تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ دریاؤں کی بے قابو لہریں، بادلوں کا طوفانی برساؤ اور پہاڑوں سے اترتے پانی کے ریلے ہزاروں خاندانوں کی زندگی اجیرن بنا چکے ہیں۔ دیہات اجڑ گئے، کھیت کھلیان بہہ گئے، مویشی پانی میں ڈوب گئے اور سب سے بڑھ کر بے شمار قیمتی انسانی جانیں لقمۂ اجل بن گئیں۔ حکومتی اعداد و شمار روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے لیے ہر ایک جان ایک دنیا کے برباد ہونے کے مترادف ہے۔ یہ لمحہ سوچنے کا ہے کہ آخر پاکستان میں انسانی جان اتنی سستی کیوں ہے کہ ہر قدرتی آفت کے بعد سینکڑوں بلکہ ہزاروں زندگیاں لمحوں میں مٹی میں مل جاتی ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بارش اور سیلاب کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر چند سال بعد کوئی نہ کوئی ایسا سیلاب آتا ہے جو اپنی ہولناکی کی نئی داستان رقم کر دیتا ہے۔ کبھی 2010 کا سیلاب یاد آتا ہے جسے "سپر فلڈ" کہا گیا، کبھی 2022 کے وہ مناظر ذہنوں پر تازہ ہو جاتے ہیں جب ایک تہائی ملک پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب موجودہ سال میں بھی وہی منظر نامہ دہرا دیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہر دفعہ نقصانات بڑھتے جاتے ہیں اور حفاظتی انتظامات کا فقدان ویسا ہی رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر سال بارشوں اور سیلابوں کی پیشگوئی ہوتی ہے وہاں حکومتیں اور ادارے آخر کب تک غفلت کی چادر اوڑھے سوئے رہیں گے؟ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو ایمرجنسی میٹنگز، بیانات اور اعلانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مگر اس وقت تک کئی ماؤں کی گود اجڑ چکی ہوتی ہے، بچوں کے مستقبل دفن ہو چکے ہوتے ہیں اور خاندان دربدر ہو جاتے ہیں۔
انسانی جان کی قیمت دنیا میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے، مگر پاکستان میں اس کا معیار الٹ ہے۔ یہاں ایک سڑک، ایک پل یا ایک بجٹ کی فائل انسانی جان سے زیادہ قیمتی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے بنائے گئے پشتے بروقت مرمت نہیں ہوتے، برساتی نالے صاف نہیں کیے جاتے اور ڈیم بنانے کی فائلیں دہائیوں سے الماریوں میں بند ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بارش کے چند دنوں میں ہی بستیاں بہہ جاتی ہیں اور حکومت کے نمائندے محض تعزیت کے بیانات پر اکتفا کرتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب سے متاثرہ زیادہ تر علاقے غریب اور پسے ہوئے عوام کے ہیں۔ کسان، مزدور اور چھوٹے دیہاتی گھرانے ہر بار سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ان کی کچی جھونپڑیاں اور مٹی کے گھر پانی کی پہلی لپیٹ ہی میں مٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ریاست کے وعدے اور دعوے محض کاغذی ثابت ہوتے ہیں۔ راشن اور امداد کی تقسیم میں بھی بدانتظامی، اقربا پروری اور سیاسی نمائش شامل ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان غریبوں کی جان واقعی اتنی سستی ہے کہ ان کے مرنے پر محض ایک ہنگامی اعلان اور فوٹو سیشن کافی سمجھا جاتا ہے؟
آج اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو وہاں انسانی جان کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ کسی قدرتی آفت سے پہلے ہی ایمرجنسی پلانز بنائے جاتے ہیں، لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جاتا ہے اور ریلیف ٹیمیں چوبیس گھنٹے متحرک رہتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں آفت آنے کے بعد ہی سب کو یاد آتا ہے کہ عوام بھی اس ملک کا حصہ ہیں۔
یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ قدرتی آفات کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا، لیکن ان کے نقصانات کو کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اگر بروقت پشتوں کی مرمت ہو، نکاسی آب کا نظام بہتر بنایا جائے، موسمیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کی جائے اور متاثرہ علاقوں میں فوری ریلیف مہیا کیا جائے تو ہزاروں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ اقدامات صرف فائلوں تک محدود رہتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنی آواز بلند کریں اور حکومت سے جواب طلب کریں۔ یہ ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب یہاں انسانی جان کی قدر ہو۔ اگر ہم نے اپنے شہریوں کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا تو کل کو یہ مسئلہ ہر بڑے شہر تک پہنچ سکتا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور جیسے شہر بھی ندی نالوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
میرے اس کالم کا عنوان "میری جان اتنی سستی نہیں ہے" ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہونی چاہیے۔ کیونکہ جب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ہماری جان واقعی قیمتی ہے تو پھر ہم ریاست اور اداروں سے حساب لیں گے، انہیں مجبور کریں گے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کھڑا ہونا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں بارش کو خوف کی علامت نہ سمجھیں بلکہ رحمت جانیں۔
سیلابی پانی کے ریلے صرف زمینیں اور مکان ہی نہیں بہا لے جاتے بلکہ ہمارے نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر دیتے ہیں۔ یہ وقت آنکھیں بند کرنے کا نہیں بلکہ سچ کا سامنا کرنے کا ہے۔ اگر ریاست نے انسانی جان کی حفاظت کو ترجیح نہ دی تو پھر ہر سال یہی کہانی دہرائی جائے گی اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کی لاشوں پر کالم لکھتے رہیں گے۔
آخر میں یہ سوال ہر حکمران، ہر افسر اور ہر باشعور شہری کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں: کیا واقعی ہماری جان اتنی سستی ہے کہ ہر بار پانی کے بہاؤ میں بہہ جائے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر سب کو مل کر اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ کیونکہ یہ ملک تب ہی سلامت رہے گا جب اس کے شہری محفوظ ہوں گے۔

