March Lahore Se Kyun? Chand Sawalat, Chand Pehlu
مارچ لاہور سے کیوں؟ چند سوالات، چند پہلو

ملک میں ایک بار پھر احتجاج، دھرنوں اور مارچز کا موسم لوٹ آیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان (TLP) کا حالیہ احتجاجی مارچ کئی حوالوں سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس مارچ کا اعلان اسلام آباد کی امریکی ایمبیسی تک پہنچنے کے لیے کیا گیا، مگر آغاز لاہور سے ہوا۔
یہ وہ نکتہ ہے جو کئی حلقوں میں حیرت اور سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اگر احتجاج اسلام آباد میں تھا تو پھر لاہور سے شروعات کیوں؟ یہی وہ سوال ہے جو عوامی سطح پر سنجیدہ گفتگو کا باعث بن رہا ہے۔
پنجاب حکومت کی سربراہی اس وقت وزیر اعلیٰ مریم نواز کے پاس ہے۔ انہی کے دور میں TLP نے لاہور سے مارچ کا آغاز کیا اور یہ مارچ کسی بڑی مزاحمت کے بغیر صوبے کی خارجی حدود تک جا پہنچا۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اسی لاہور میں جب تحریک انصاف (PTI) نے ریلیاں یا مارچ کی کوشش کی تھی تو کس نوعیت کا کریک ڈاؤن کیا گیا تھا؟
کنٹینرز سے راستے بند کیے گئے، کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور پورا شہر ایک قلعہ بن گیا تھا۔ لیکن اس بار منظرنامہ مختلف ہے، نہ وہ سختی، نہ وہ گرفتاریوں کی لہر، نہ وہ بے چینی۔ کیا حکومت کا رویہ نرم ہوا ہے، یا حالات کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں؟
TLP کے مارچ سے دو روز قبل ہی اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا۔ داخلی و خارجی راستے بند، موبائل سروس متاثر اور عوام پریشانی میں مبتلا۔ حکومت نے ابھی مارچ شہر میں داخل بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ دارالحکومت بند کر دیا گیا، گویا خوف پہلے سے طاری تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر حکومتی وزراء یا ترجمانوں کی جانب سے کوئی واضح پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔ نہ کوئی سخت موقف، نہ مذاکرات کی کھلی بات، بس ایک خاموشی سی چھائی رہی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس میں ملک کے سیاسی اور سیکیورٹی حالات پر بات کی گئی۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان یا ان کے مارچ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس تحریک انصاف (PTI) اور خصوصاً خیبر پختونخواہ (KPK) کی صورتحال پر بات کی گئی۔
یہ توازن کی کمی سوال کو جنم دیتی ہے کہ آخر اس مخصوص خاموشی کی کیا وجہ ہے؟ کیا TLP کو اس وقت کسی اسٹریٹیجک یا سیاسی ضرورت کے تحت برداشت کیا جا رہا ہے؟ یا ریاستی ادارے کسی نئے بیانیے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
اگر ہم ماضی میں ہونے والے احتجاج، جلسوں اور مارچز کا موازنہ کریں تو ایک دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے۔ تحریک انصاف نے جب مارچ کیا تو لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ اس جماعت نے انتخابات میں بھی کروڑوں ووٹ حاصل کیے۔ اس کے باوجود اسے سخت ترین کارروائیوں، مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے برعکس تحریک لبیک پاکستان کا ووٹ بینک نسبتاً محدود ہے، عوامی حمایت مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کے مارچز کو ایک خاص مکمل آزادی یا برداشت ملتی نظر آتی ہے۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ کیا ریاستی اداروں کا رویہ مختلف جماعتوں کے لیے مختلف ہے؟ یہ سوال عام شہری کے ذہن میں جنم لے رہا ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت کا رویہ نرمی پر مبنی ہے یا بے بسی پر۔
ایک طرف PTI کا بیانیہ جو عوامی جذبات کو جھنجھوڑ چکا ہے اور دوسری طرف TLP جیسی مذہبی جماعت جو عوامی مذہبی جذبات کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ ایسے میں حکومت شاید کسی نئے محاذ کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ اسی لیے نہ سختی دکھائی جا رہی ہے، نہ نرمی کا واضح اشارہ۔ بس ایک غیر متعین پالیسی، جو خود حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
احتجاج جمہوری حق ہے، مگر اس کا اثر عام شہری کی زندگی پر براہ راست پڑتا ہے۔ اسلام آباد کی بندش سے کاروبار، دفاتر، تعلیمی ادارے متاثر ہوئے۔ لوگوں کو گھنٹوں ٹریفک میں پھنسا رہنا پڑا۔ یہ سوال اہم ہے کہ اگر مقصد امن اور انصاف کا پیغام دینا تھا۔ تو عوامی زندگی کو مفلوج کرنا کیا درست حکمت عملی ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سیاسی و مذہبی تحریکوں کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
ریاستی رویوں میں تسلسل کا فقدان واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت طاقتور بیانیہ لے کر آتی ہے تو اسے سیکیورٹی رسک سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی مذہبی تحریک وہی طرز اپناتی ہے تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف عوام میں مایوسی پیدا کرتا ہے بلکہ ریاستی رٹ پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ اگر احتجاج جرم ہے تو سب کے لیے جرم ہو۔ اگر جمہوری حق ہے تو سب کو مساوی حق دیا جائے۔
تحریک لبیک کا مارچ وقتی ہو سکتا ہے، مگر اس سے جڑے سوالات طویل المیعاد ہیں۔ کیا حکومت ایک نئی سیاسی یا مذہبی طاقت کے سامنے جھک رہی ہے؟ کیا یہ خاموشی کسی بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ یا یہ صرف وقتی مصلحت؟
جو بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ یہ صورتحال عوامی شعور کو متحرک کر رہی ہے۔ اب لوگ صرف احتجاج نہیں دیکھ رہے، بلکہ احتجاج کے پیچھے چھپی سیاست کو بھی سمجھنے لگے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں شاید یہ نیا باب ہے جہاں خاموشی بھی پیغام بن چکی ہے اور برداشت بھی پالیسی سمجھی جا رہی ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ مارچ کہاں سے شروع ہوا، بلکہ یہ ہے کہ ریاست کا رویہ کب یکساں ہوگا؟

