Kya Sahafat Jurm Hai?
کیا صحافت جرم ہے؟

صحافت کسی بھی مہذب معاشرے کا ضمیر ہوتی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو سماج کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی بدنمائی بھی بےنقاب کرتا ہے۔ جب ریاستی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کریں، جب طاقتور طبقات ظلم کو قانون کا لباس پہنانے کی کوشش کریں، تو یہی صحافت عوام کی آواز بن کر سامنے آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا پاکستان میں سچ بولنا واقعی جرم بن چکا ہے؟ کیا صحافت اب اتنی خطرناک ہوگئی ہے کہ اس کے لیے آزادی نہیں بلکہ قربانی درکار ہے؟
پاکستان کی صحافتی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، صحافیوں نے حق اور سچ کے لیے نہ صرف اپنی نوکریاں، بلکہ اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ملک میں صحافت کرنا اتنا خطرناک ہو جائے کہ دنیا کے بدترین ممالک میں اس کا شمار ہو؟ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) کی رپورٹس پاکستان کو ہر سال ان ممالک کی فہرست میں شامل کرتی ہے جہاں صحافت سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔
پاکستان میں صحافت کا آغاز آزادی کے ساتھ ہی ہوا، مگر جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ آزادی صرف کاغذوں پر ہے۔ ایوب خان کا مارشل لا ہو، ضیاء الحق کی آمریت یا پرویز مشرف کا دورِ نیم جمہوریت، ہر دور میں صحافیوں کو یا تو خریدا گیا یا دبایا گیا۔ سنسرشپ، اخبارات کی بندش، صحافیوں کی گرفتاریاں اور تشدد۔۔ یہ سب اس ملک کی تلخ حقیقتیں ہیں۔
ضیاء الحق کا دور صحافت کے لیے بدترین دور تھا۔ "مخصوص خبریں" چھاپنے کے لیے دباؤ، اخبارات پر پابندیاں اور جمہوریت کی آواز کو دبانے کے لیے صحافیوں کو کوڑے تک مارے گئے۔ حبیب جالب، منہاج برنا اور نثار عثمانی جیسے بے باک صحافی اس دور کی ظلمت میں چراغ بن کر روشن رہے، مگر ان کی قیمت انہوں نے قید و بند اور مالی محرومی کی صورت میں چکائی۔
پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی، لیکن ساتھ ہی ساتھ "ریموٹ کنٹرولڈ" آزادی کا بھی آغاز ہوا۔ ناظرین کو بظاہر لگتا تھا کہ صحافت آزاد ہے، مگر پسِ پردہ جو کچھ ہوتا تھا، وہ اس سے زیادہ خطرناک تھا۔ چینلز کی بندش، پروگراموں پر پابندیاں، اینکرز کی جبری برطرفی، یہ سب عام باتیں بن گئیں۔
حالیہ جمہوری ادوار بھی صحافیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھے، مگر صرف دکھاوے کی حد تک۔ درحقیقت، موجودہ دور میں بھی صحافیوں کو لاپتہ کر دینا، انہیں دھمکیاں دینا، یا ان پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات لگا دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ ارشد شریف کا قتل، مطیع اللہ جان کا اغوا، اسد طور پر حملہ، عمران ریاض کی جبری گمشدگی، یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں صحافت کرنا واقعی خطرناک ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ صحافی آخر چاہتے کیا ہیں؟ صرف یہ کہ انہیں سچ بولنے دیا جائے، ان پر دباؤ نہ ڈالا جائے اور انہیں اپنی جان و مال کے خطرے کے بغیر اپنے پیشے سے وفاداری کا موقع دیا جائے۔ کیا یہ مطالبات کسی مجرم کے ہو سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے مسائل، بدعنوانی، ناانصافی اور ریاستی زیادتیوں کو بے نقاب کرتے ہیں، تاکہ ایک بہتر معاشرہ تشکیل پا سکے۔
صحافیوں کی خدمات کو نظر انداز کرنا گویا قوم کے شعور کی توہین ہے۔ جب سیلاب آتا ہے، جب زلزلے سے زمین ہلتی ہے، جب مہنگائی عوام کو نگلتی ہے، جب ناانصافی جڑیں مضبوط کرتی ہے، تب یہی صحافی ہوتے ہیں جو عوام کی چیخوں کو آواز دیتے ہیں۔ صحافت صرف خبریں دینا نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی جنگ لڑنا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان انہی کو ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کے عروج نے ایک نئی صحافتی نسل کو جنم دیا ہے، مگر ان کے لیے خطرات بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ آج کل ایک سادہ سا ٹوئٹ بھی "غداری" کا لیبل لگا دیتا ہے۔ یوٹیوب چینلز بند کیے جاتے ہیں، ویب سائٹس بلاک کی جاتی ہیں اور ڈیجیٹل صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقتور حلقے صحافت کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے۔
آزاد صحافت کسی ریاست کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر صحافت کو مجرم بنا دیا جائے، تو پھر ریاست بھی ایک قید خانہ بن جاتی ہے۔ ایک ایسا قید خانہ جس میں سوال کرنے کی اجازت نہیں، اختلاف کی گنجائش نہیں اور سچ بولنے کی سزا موت یا گمشدگی ہو۔
لیکن امید کی ایک کرن اب بھی باقی ہے۔ پاکستان کا صحافی آج بھی خاموش نہیں۔ وہ بول رہا ہے، لکھ رہا ہے، خطرات کے باوجود سچ کی شمع کو بجھنے نہیں دے رہا۔ سوشل میڈیا نے بھی عوام کو شعور دیا ہے اور اب صحافی اکیلے نہیں رہے۔ جب کوئی صحافی اغوا ہوتا ہے یا اس پر حملہ ہوتا ہے، تو سوشل میڈیا پر آوازیں اٹھتی ہیں، دباؤ بڑھتا ہے اور عالمی ادارے متوجہ ہوتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر صحافت جرم ہے، تو یہ وہ جرم ہے جو پاکستان کے سچے بیٹے فخر سے کرتے رہیں گے۔ کیونکہ جب سچ بولنے والا خاموش ہو جائے، تو جھوٹ بولنے والے طاقتور ہو جاتے ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے، انصاف ہو اور عوام کو حق ملے، تو ہمیں اس صحافت کو جرم نہیں، خدمت تسلیم کرنا ہوگا۔

