Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Hamza Ali
  4. Jangen Qaumen Larti Hain

Jangen Qaumen Larti Hain

جنگیں قومیں لڑتی ہیں

تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں محض ہتھیاروں، توپوں یا ٹینکوں سے نہیں لڑی جاتیں، بلکہ یہ قوموں کے جذبوں، نظریات اور اجتماعی سوچ سے جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔ جنگیں صرف افواج کا نہیں، پوری قوم کا امتحان ہوتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان، دو ہمسایہ ممالک جن کی تاریخ، ثقافت اور جغرافیہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں، آج ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ سرحد پار سے الفاظ کے تیر برس رہے ہیں اور سیاسی قیادتیں عوامی جذبات کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے بھڑکا رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر جنگ ہوئی، تو اسے کون لڑے گا؟ فوجیں یا قومیں؟

پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ان کے درمیان کسی بھی نوعیت کی جنگ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ اس کے اثرات پورے خطے، حتیٰ کہ پوری دنیا تک پھیل سکتے ہیں۔ مگر اس وقت جو چیز زیادہ خطرناک ہے، وہ ہے عوامی سطح پر نفرت کا پھیلاؤ۔ سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور جلسے جلوسوں میں جو زبان استعمال کی جا رہی ہے، وہ جذبات کو مزید بھڑکاتی ہے۔ نوجوان نسل، جو کہ قوم کا مستقبل ہے، اسے جنگ کے نشے میں مبتلا کیا جا رہا ہے، جیسے جنگ کوئی کھیل ہو۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال، معاشی دباؤ اور داخلی عدم استحکام ایک بڑی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دوسری طرف بھارت میں انتہاپسند ہندوتوا سوچ حکومتی سطح پر غالب ہے، جو ہر موقع پر پاکستان دشمنی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ مگر یہ بات بھارتی عوام کو بھی سمجھنی چاہیے کہ جنگ میں صرف دشمن نہیں مرتا، اپنے بھی قربان ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پلوامہ ہو یا بالاکوٹ، دونوں طرف انسانی جانیں گئیں۔ دونوں طرف مائیں روئیں، بچے یتیم ہوئے اور گھروں میں اندھیرے چھا گئے۔

جنگیں وہی قومیں جیتتی ہیں جن کے پاس اتحاد، خود انحصاری اور نظم و ضبط ہو۔ ہم بطور پاکستانی کیا ان خوبیوں کے حامل ہیں؟ کیا ہماری معیشت اتنی مضبوط ہے کہ طویل جنگ برداشت کر سکے؟ کیا ہماری قوم اتنی منظم ہے کہ ایک مقصد کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کرے؟ یہ سوال صرف حکومت یا فوج کے لیے نہیں، بلکہ ہر پاکستانی کے لیے ہیں۔ کیونکہ جنگیں صرف بارڈر پر نہیں لڑی جاتیں، ہر گلی، ہر محلے اور ہر گھر میں لڑی جاتی ہیں مہنگائی، بے روزگاری، راشن کی کمی اور بدامنی کے روپ میں۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سفارت کاری بھی ایک جنگ ہوتی ہے، ایک ایسی جنگ جو خون کے بغیر جیتی جا سکتی ہے۔ چین، روس، ترکی اور خلیجی ممالک جیسے دوستوں کو بروئے کار لا کر ہم عالمی سطح پر بھارت کے جارحانہ رویے کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اندرونی طور پر مستحکم ہوں۔ ہماری سیاست، صحافت اور سول سوسائٹی کو جنگ کی بجائے امن کا بیانیہ مضبوط کرنا ہوگا۔

پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے اور اس کی قربانیاں تاریخ کا روشن باب ہیں۔ لیکن ہر سپاہی بھی ایک انسان ہے، ایک بیٹا، ایک باپ، ایک شوہر۔ وہ صرف اس وقت لڑتا ہے جب پوری قوم اس کے پیچھے کھڑی ہو۔ اگر قوم تقسیم ہو، تو جنگ جیتنا محال ہو جاتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت قومی یکجہتی، میڈیا کی ذمہ داری اور نوجوانوں کی درست رہنمائی کی ہے۔

بھارت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے۔ اس کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن ہم جنگ نہیں چاہتے، نہ ہی اسے اپنے اوپر مسلط دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک تعلیم، صحت، معیشت اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ دشمنی کی نہیں، ترقی کی دوڑ ہو۔

آخر میں، ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے: اگر جنگ ہوئی، تو ہم کیا کھو دیں گے؟ اور اگر امن قائم ہوا، تو کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں؟ جنگوں سے صرف بربادی ملتی ہے، جبکہ امن قوموں کو آگے لے جاتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں خون سے تاریخ لکھنی ہے یا ترقی سے۔

کیونکہ آخرکار، جنگیں صرف فوجیں نہیں، قومیں لڑتی ہیں۔۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan