Jang Nahi, Ghurbat Se Laro
جنگ نہیں، غربت سے لڑو

خطے کے دو بڑے ممالک پاکستان اور بھارت ایک بار پھر کشیدگی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ بیانات کی گھن گرج ہو، سرحدی جھڑپیں ہوں یا میڈیا پر بڑھکیں، دونوں طرف ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جیسے جنگ بس ہونے ہی والی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سیاسی و عسکری کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان ہمیشہ ان عوام کو ہوتا ہے جنہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی ترسنا پڑتا ہے۔
بھارت اور پاکستان، جو 1947 میں ایک خونی تقسیم کے نتیجے میں الگ ہوئے، تب سے آج تک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور بے شمار چھوٹی جھڑپوں میں ہزاروں جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہر جنگ کے بعد امن کی کوششیں ضرور ہوئیں لیکن اعتماد کا فقدان، سیاسی مفادات اور میڈیا کی اشتعال انگیزی نے ان کوششوں کو بار آور نہیں ہونے دیا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ ایک طرف دونوں ممالک دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں، دوسری طرف غربت، بے روزگاری، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو ملک کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کا بوجھ، مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ دوسری طرف بھارت، جو خود کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت کہلواتا ہے، وہاں بھی کروڑوں لوگ جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق بھارت دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کی غذائی قلت سب سے زیادہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب دونوں ممالک کے پاس وسائل کی کمی ہے، عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، تو پھر اربوں روپے کے جنگی سازوسامان پر خرچ کیوں کیا جا رہا ہے؟ ٹینک، میزائل، جنگی طیارے اور ایٹمی ہتھیار غربت کا علاج نہیں۔ اصل جنگ غربت، جہالت اور بیماریوں سے ہونی چاہیے۔
بدقسمتی سے دونوں ممالک میں میڈیا کا کردار بھی جلتی پر تیل ڈالنے جیسا ہے۔ سرحد پر معمولی سی جھڑپ ہو جائے تو ٹی وی اسکرینوں پر جنگی ترانے چلنے لگتے ہیں، ریٹنگ کی دوڑ میں سچائی اور اعتدال کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ عوام کو جذباتی کرکے ایک ایسی فضا بنا دی جاتی ہے جس میں اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔ یہی ماحول سیاست دانوں کو بھی جنگی بیانات دینے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوامی جذبات کا سہارا لے کر وہ اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹا سکتے ہیں۔
جنگ کی صورت میں نقصان صرف انسانی جانوں کا ہی نہیں ہوتا، معیشت کو بھی شدید دھچکا لگتا ہے۔ تجارت رک جاتی ہے، سرمایہ کاری ختم ہو جاتی ہے اور ترقی کے خواب چکناچور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جب دنیا ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے، جنوبی ایشیا کے یہ دو پڑوسی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ عوام کو جنگی جنون کے بجائے فلاح و بہبود کی طرف مائل کریں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، روزگار اور ٹیکنالوجی جیسے شعبے وہ میدان ہیں جہاں اصل مقابلہ ہونا چاہیے۔ سرحدوں پر امن ہوگا تو تجارت بڑھے گی، سیاحت فروغ پائے گی اور دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط ہوگی۔
کیا یہ بہتر نہ ہو کہ پاکستان کا ایک بچہ اسکول کی کتاب پکڑے اور بھارت کا بچہ کمپیوٹر پر کوڈنگ سیکھے، نہ کہ دونوں ہاتھوں میں بندوقیں تھامے جنگی نعرے لگاتے پھریں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو نفرت کی وراثت دینا چاہتے ہیں یا ایک پرامن، خوشحال مستقبل؟
کاش دونوں ملکوں کی قیادت یہ بات سمجھ سکے کہ دشمنی کی دیواریں توڑ کر دوستی کے پل بنانا ہی اصل بہادری ہے۔ اگر ہم جنگ پر خرچ ہونے والا بجٹ عوام کی فلاح پر لگائیں تو نہ صرف غربت ختم ہو سکتی ہے، بلکہ دنیا میں جنوبی ایشیا ایک ترقی یافتہ خطے کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر یہ نعرہ لگائیں: "جنگ نہیں، غربت سے لڑو!"

