Jamhuriat Neend Mein Hai
جمہوریت نیند میں ہے

پاکستان کی سیاست ایک بھنور ہے جس میں امیدیں، وعدے، آئین، عوام اور جمہوریت بار بار ڈوبتے اور ابھرتے ہیں۔ لیکن آج جس لمحے میں ہم سانس لے رہے ہیں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جمہوریت اس وقت نیند میں ہے، ایک ایسی نیند جو خود اختیار کردہ نہیں، بلکہ زبردستی سلادی گئی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے جمہوریت کا خواب مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔ محمد علی جناح کا پاکستان جس میں عوام کی آواز کو اولیت حاصل ہونی تھی، جلد ہی بیوروکریسی، طاقتور طبقوں اور عسکری سوچ کے پنجوں میں آ گیا۔ 1958 میں مارشل لا لگا اور یوں پہلا آئینی انحراف ہوا۔ تب سے لے کر آج تک، جمہوریت پاکستان میں کبھی بالغ نہ ہو سکی۔ کبھی اسے "اسلامی نظام" کے نام پر محدود کیا گیا، تو کبھی "ٹکنوکریٹس کی حکومت" کے نام پر پسِ پشت ڈالا گیا۔
مگر صرف ماضی کا نوحہ پڑھنا کافی نہیں۔ آج بھی جب ہم جمہوریت کا حال دیکھتے ہیں، تو نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خود غیر جمہوری رویوں کا شکار ہیں۔ پارٹیوں میں مشاورت کا کلچر کم ہوتا جا رہا ہے، فیصلے چند افراد یا ایک "قائد" کی انگلی کے اشارے سے ہوتے ہیں۔ ایسی "جمہوریت" میں عوام کی شمولیت علامتی بن جاتی ہے۔ انتخابات محض رسمی کارروائی بن چکے ہیں، جن کے نتائج اکثر پہلے سے طے شدہ محسوس ہوتے ہیں۔
آج پاکستان میں جمہوریت نہ صرف کمزور ہے، بلکہ مصنوعی آکسیجن پر زندہ ہے۔ پارلیمنٹ بے اثر، عدلیہ متنازع، میڈیا پر قدغنیں اور عوام بے آواز ہو چکے ہیں۔ ووٹر کو صرف ووٹ دینے کی حد تک جمہوریت میں شریک سمجھا جاتا ہے، جبکہ اس کا اصل کردار، یعنی پالیسی سازی، احتساب اور نمائندگی کا مطالبہ، نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
پچھلی دو دہائیوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابی عمل تک محدود ہوگئی ہے۔ 2008 سے لے کر 2023 تک پاکستان میں جمہوری حکومتیں تو بنیں، مگر ان کا کردار کیا رہا؟ کیا پارلیمان نے عوامی مسائل پر قانون سازی کی؟ کیا سیاسی جماعتوں نے اپنی صفوں میں جمہوری اصولوں کو اپنایا؟ کیا عدلیہ نے جمہوری اصولوں کی حفاظت کی؟ ان تمام سوالوں کا جواب "نہیں" میں آتا ہے۔
عوام کو جس "جمہوری سسٹم" میں زندہ رکھا گیا ہے، وہ زیادہ تر ایک دکھاوا ہے۔ سچ یہ ہے کہ طاقت کا مرکز کہیں اور ہے، وہ غیر منتخب ادارے جن کا احتساب ممکن نہیں، وہ کاروباری و معاشی گروہ جو پالیسیز کا رخ طے کرتے ہیں اور وہ طبقہ اشرافیہ جو قانون سے بالاتر ہے۔
جمہوریت صرف ووٹ کا نام نہیں، یہ ایک مسلسل مکالمے، شفاف احتساب اور پائیدار اداروں کا نام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ووٹ لینے کے بعد عوام کو اگلے انتخابات تک بھلا دیا جاتا ہے۔ میثاقِ جمہوریت جیسے معاہدے کاغذوں تک محدود رہتے ہیں اور سیاسی مفاہمت کی جگہ انتقام، دشنام اور دھوکہ بازی لے لیتے ہیں۔
"جمہوریت نیند میں ہے" کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ختم کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ کہ اسے شعوری طور پر غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ جیسے ایک مریض کو بے ہوشی کی حالت میں رکھا جائے، ویسے ہی جمہوریت کو آج نیم مردہ رکھا گیا ہے، کہ نہ تو وہ بول سکے، نہ مخالفت کر سکے، نہ سوال اٹھا سکے۔
مگر ہر نیند کا ایک جاگنا بھی ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب عوام کا شعور بیدار ہوتا ہے تو پھر نہ جبر رکتا ہے، نہ دھونس چلتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو سچ بتانے والے ادارے، میڈیا، تعلیم اور سول سوسائٹی، خود سنسرشپ، خوف اور دباؤ کا شکار ہیں۔ جب آوازیں خاموش کرا دی جائیں تو نیند لمبی ہو جاتی ہے۔
مگر اس کالی رات میں بھی امید کی کرن باقی ہے۔ نوجوان نسل، جو اب زیادہ باخبر، مربوط اور بولنے کی ہمت رکھنے والی ہے، وہ تبدیلی لا سکتی ہے۔ وہ سوال اٹھا سکتی ہے، جواب مانگ سکتی ہے اور جمہوریت کو جگا سکتی ہے۔
جمہوریت کوئی مغربی تصور نہیں، یہ ہماری ضرورت ہے۔ یہ روٹی، روزگار، تعلیم اور صحت کی ضمانت ہے، مگر تب جب یہ حقیقی ہو، صرف نمائشی نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقہ، چاہے وہ سیاستدان ہوں، صحافی ہوں، طالبعلم ہوں یا عام شہری، اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔
جمہوریت نیند میں ہے، مگر مر نہیں گئی۔ اسے جگانے کے لیے ایک اجتماعی کوشش درکار ہے، سچ بولنے کی، سچ سننے کی اور سچ کا دفاع کرنے کی۔ یہ جنگ آسان نہیں، مگر لازم ہے۔

