Hum Haarne Ke Aadi Kyun?
ہم ہارنے کے عادی کیوں؟

کرکٹ پاکستان کے عوام کے دل کی دھڑکن ہے۔ گلی محلوں سے لے کر بڑے اسٹیڈیم تک ہر جگہ یہ کھیل جوش و خروش سے کھیلا اور دیکھا جاتا ہے۔ مگر گزشتہ چند برسوں میں ایک سوال بار بار ذہنوں میں گردش کر رہا ہے: کیا ہم ہارنے کے عادی ہو گئے ہیں؟
جب بھی قومی ٹیم کسی بڑے ٹورنامنٹ میں داخل ہوتی ہے، عوام کا جوش دیدنی ہوتا ہے۔ امیدیں باندھی جاتی ہیں، دعائیں کی جاتی ہیں اور پورے ملک میں ایک جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس بار جیت ہماری ہوگی۔ لیکن افسوس کہ اکثر نتائج اس کے برعکس آتے ہیں۔ چاہے ایشیا کپ ہو، ورلڈ کپ یا پھر کسی حریف ملک کے خلاف سیریز، ہم کبھی انفرادی کارکردگی پر خوش ہو جاتے ہیں، تو کبھی "اگر مگر" کے سہارے اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہماری ٹیم جیت کو عادت کیوں نہیں بنا پاتی؟
سب سے بڑی وجہ کرکٹ بورڈ کی غیر یقینی صورتحال ہے۔ آئے دن چیئرمین بدل جاتے ہیں، پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا اور کھلاڑی مستقل دباؤ میں رہتے ہیں کہ نہ جانے کب کس کو ٹیم سے باہر کر دیا جائے۔ ایسی فضا میں نہ تو کھلاڑی اعتماد کے ساتھ کھیل سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی ہو پاتی ہے۔ دنیا کی بڑی ٹیمیں جیسے آسٹریلیا یا بھارت دیکھ لیں، ان کے ہاں بورڈ کے اندر ایک تسلسل ہے جو کارکردگی میں جھلکتا ہے۔
کرکٹ اب محض کھیل نہیں رہا، یہ ایک سائنسی بنیادوں پر چلنے والا نظام ہے۔ کھلاڑیوں کی فٹنس، ٹریننگ اور ذہنی مضبوطی کے لیے مخصوص پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک پرانے طریقوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھلاڑی دباؤ کے لمحوں میں اپنی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی بڑا ہدف درکار ہوتا ہے یا حریف ٹیم دباؤ ڈالتی ہے تو اکثر ہمارے بیٹسمین رنز بنانے کے بجائے دفاعی کھیل اختیار کرتے ہیں اور ٹیم دھیرے دھیرے میچ سے باہر نکل جاتی ہے۔
ہماری جیت اکثر کسی ایک کھلاڑی کی غیر معمولی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے۔ کبھی بابر اعظم سنچری بنا لیں، کبھی شاہین آفریدی ابتدائی وکٹیں لے جائیں یا پھر محمد رضوان دباؤ میں کھڑے ہو جائیں تو ٹیم جیت جاتی ہے۔ لیکن جب یہ "ہیروز" ناکام ہو جائیں تو پوری ٹیم بکھر جاتی ہے۔ دوسری طرف کامیاب ٹیمیں ہمیشہ ٹیم ورک پر یقین رکھتی ہیں۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کوئی ایک کھلاڑی ناکام ہو جائے تو دوسرا میدان سنبھال لیتا ہے۔ یہی فرق جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں میں ہوتا ہے۔
کرکٹ میں تکنیک کے ساتھ ساتھ دماغی مضبوطی بھی اہم ہے۔ ہماری ٹیم جب دباؤ میں آتی ہے تو اکثر گھبراہٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر روایتی حریف بھارت کے خلاف میچز میں یہ بات واضح نظر آتی ہے۔ کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، فیلڈنگ میں کیچز چھوٹتے ہیں اور بیٹنگ میں رن آؤٹ جیسی غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ سب ذہنی تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان میں کرکٹ صرف کھیل نہیں، بلکہ ایک جذباتی معاملہ ہے۔ میڈیا اور عوام کھلاڑیوں سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ ایک میچ جیتنے پر آسمان پر بٹھا دیا جاتا ہے اور ہارنے پر زمین پر گرا دیا جاتا ہے۔ یہ دباؤ کھلاڑیوں کو مزید غیر متوازن کر دیتا ہے۔ بڑے ملکوں میں میڈیا تنقید ضرور کرتا ہے مگر ادارہ جاتی سپورٹ بھی موجود رہتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں کھلاڑی حوصلہ افزائی سے زیادہ طنز کا شکار ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے؟ کیا واقعی ہم ہارنے کے عادی ہو چکے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سنجیدگی دکھائی جائے تو حالات بدلے جا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے کرکٹ بورڈ میں تسلسل اور شفافیت لائی جائے۔ کھلاڑیوں کی فٹنس اور ذہنی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ نئے ٹیلنٹ کو مناسب مواقع مل سکیں۔ کوچنگ اسٹاف کو میرٹ پر تعینات کیا جائے، نہ کہ تعلقات کی بنیاد پر۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیم میں ٹیم ورک کی فضا پیدا کی جائے تاکہ کسی ایک فرد پر انحصار نہ رہے۔
پاکستان کرکٹ میں ٹیلنٹ کی کبھی کمی نہیں رہی۔ ہمارے کھلاڑی دنیا کے کسی بھی کونے میں جا کر اپنی کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا ہے جہاں ہار کو قسمت کا حصہ اور جیت کو کسی کرشمے سے جوڑا جاتا ہے۔ جب تک ہم سنجیدگی، منصوبہ بندی اور تسلسل کو اپنی عادت نہیں بناتے، تب تک جیت ہماری عادت نہیں بن سکتی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سوال سنجیدگی سے پوچھیں: کیا ہم ہارنے کے عادی رہیں گے، یا جیتنے کا ہنر سیکھیں گے؟

