Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Hamza Ali
  4. Ghair Yaqeeni Ki Dund Mein Lipta Pakistan

Ghair Yaqeeni Ki Dund Mein Lipta Pakistan

غیر یقینی کی دھند میں لپٹا پاکستان

پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر شعبہ زندگی غیر یقینی اور اضطراب کا شکار ہے۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، عدالتی محاذ آرائی اور سکیورٹی خدشات نے ایک عام پاکستانی کو نہ صرف پریشان کر رکھا ہے بلکہ مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ملک کو درپیش یہ مسائل بیک وقت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔ اس کالم میں ہم ان پہلوؤں کا جائزہ لیں گے جو آج کے پاکستان کی پیچیدہ صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی فضا میں دھواں سا چھایا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی ادارے، سب ہی کسی نہ کسی شکل میں عدم اعتماد، اختلافات اور اقتدار کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات کے بعد سے سیاسی درجہ حرارت مسلسل بلند ہے۔ اپوزیشن جماعتیں انتخابی عمل کو شفاف نہ مانتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں جبکہ حکومت داخلی اور خارجی محاذوں پر دباؤ کا شکار نظر آتی ہے۔

عوامی اعتماد کا فقدان ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ یہ صورت حال جمہوری اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ پارلیمنٹ کا کردار محض رسمی اجلاسوں تک محدود ہو چکا ہے جبکہ اہم فیصلے پارلیمنٹ کے باہر، کسی اور قوت کے ہاتھوں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کا معاشی بحران اپنی بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ آٹا، چینی، بجلی، پٹرول، ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ بے روزگاری کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے اور نوجوان طبقہ شدید مایوسی کا شکار ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار مذاکرات، سخت شرائط پر قرضے اور ٹیکس اصلاحات نے ایک طرف ریاست کو وقتی ریلیف تو دیا، لیکن دوسری جانب عوام پر بوجھ مزید بڑھا دیا۔ معاشی پالیسیاں مختصر المدت ریلیف پر مرکوز رہیں، جبکہ طویل المدت پائیدار ترقی پر کوئی سنجیدہ حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

پاکستان کا عدالتی نظام بھی اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے اندرونی اختلافات، فیصلوں پر متنازعہ بیانات اور مخصوص شخصیات کو ریلیف یا دباؤ کے تحت فیصلے دینے جیسے الزامات نے عدلیہ کی غیر جانبداری کو متاثر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نچلی سطح پر مقدمات کی تاخیر، پولیس کا غیر مؤثر کردار اور انصاف کے حصول کی مشکلات عام شہری کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں۔

ایک عرصہ امن کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور بعض قبائلی علاقوں میں ریاستی عملداری کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ پولیس اور فوجی اہلکاروں پر حملے، عوامی مقامات پر دھماکے اور لاقانونیت کی فضا نے شہریوں میں خوف پیدا کر دیا ہے۔ ان حالات میں سکیورٹی اداروں پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے اور ان کی حکمت عملیوں پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

ایک اور نیا چیلنج سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے بیانیے ہیں۔ ہر فریق اپنا مؤقف عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر، جھوٹی خبریں اور کردار کشی کی مہمات نے معاشرتی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

عوام اب تھک چکے ہیں۔ نہ وہ کسی سیاسی جماعت پر بھروسہ کرتے ہیں، نہ ہی ریاستی اداروں پر۔ ان کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ ایک ایسی ریاست کے خواہاں ہیں جو ان کے بچوں کو تعلیم دے، انہیں صحت کی سہولت فراہم کرے اور روزگار کے مواقع دے۔ لیکن بدقسمتی سے ریاستی ترجیحات میں عوامی فلاح کم اور طاقت کی سیاست زیادہ نظر آتی ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کسی ایک فریق کی ناکامی نہیں بلکہ اجتماعی بے حسی اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں۔ جب تک تمام ادارے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کریں گے اور جب تک عوامی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت نہیں دی جائے گی، اس ملک کی تقدیر میں بہتری ممکن نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز (حکومت، اپوزیشن، عدلیہ، فوج، میڈیا، سول سوسائٹی) ایک قومی مکالمے کی بنیاد پر بیٹھیں اور ایک ایسا "چارٹر آف پاکستان" تشکیل دیں جس میں سیاسی استحکام، معاشی خود مختاری، عدالتی اصلاحات اور سکیورٹی پالیسی کا جامع لائحہ عمل طے کیا جائے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے درست فیصلے نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف ملامت ہی نہیں کریں گی، بلکہ شاید ہمیں معاف بھی نہ کریں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari