Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Hamza Ali
  4. Corruption Ke Haseen Chehre

Corruption Ke Haseen Chehre

کرپشن کے حسین چہرے

کرپشن ایک ایسا لفظ ہے جو سنتے ہی ذہن میں بدصورتی، لالچ اور بےایمانی کا تصور ابھرتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس بدصورتی کو کچھ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حسین لگنے لگتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن صرف ایک فعل نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک نظام اور ایک طرزِ زندگی بن چکا ہے۔ جب کرپشن کرنے والے ہی قومی مفادات کے ٹھیکیدار بن جائیں، تو پھر انصاف، ترقی اور شفافیت صرف نعروں تک محدود ہو جاتے ہیں۔

سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹس، دونوں طبقات اس ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر ان کے دعوے اکثر ان کے ذاتی مفادات میں لپٹے ہوتے ہیں۔ سیاستدان انتخابات سے قبل عوامی خدمت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ عوامی فلاح کے منصوبے صرف اشتہارات تک محدود رہ جاتے ہیں، جب کہ عملی میدان میں کرپشن کا ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔

بیوروکریسی، جو کہ حکومت کا دماغ اور مشینری ہوتی ہے، وہ بھی اس گھناؤنے کھیل میں برابر کی شریک ہے۔ فائلوں کی منظوری ہو، ترقیاتی فنڈز کی تقسیم ہو یا عوامی شکایات کا ازالہ، ہر مرحلے پر "کچھ دو، کچھ لو" کی پالیسی نظر آتی ہے۔ یہ طبقہ اس قدر چالاکی سے کام کرتا ہے کہ کرپشن کا پتہ بھی نہ چلے اور کام بھی ہو جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں نے اپنے عمل کو جس انداز سے خوبصورت رنگ دیا ہے، وہ بھی قابلِ توجہ ہے۔ بڑے بڑے پراجیکٹس، مہنگی گاڑیاں، فلاحی ادارے، میڈیا مہمات اور خیرات کے منصوبے، یہ سب کرپشن کے حسین چہرے ہیں۔ ایک سیاستدان اگر اربوں روپے کی کرپشن کے بعد ایک یتیم خانے کی بنیاد رکھ دے تو عوام اس کے جرائم کو بھول کر اس کی سخاوت کے گُن گانے لگتے ہیں۔

پاکستان میں اکثر ایسے سیاستدان نظر آتے ہیں جن پر نیب میں مقدمات چل رہے ہوتے ہیں، لیکن وہی لوگ ٹی وی پر مظلوم بن کر بیٹھتے ہیں اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ نظام کے خلاف ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ کرپشن کی سزا صرف کمزور کو ملتی ہے، جبکہ بااثر افراد، چاہے وہ سیاسی ہوں یا انتظامی، قانون سے بچ نکلتے ہیں۔

بیوروکریسی کا ایک اور چہرہ وہ افسران ہیں جو کرپشن کے ذریعے نہ صرف ذاتی اثاثے بناتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلواتے ہیں، جائیدادیں خریدتے ہیں اور اپنی زندگی کو ایک "کامیاب" مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہی "کامیابی" نوجوان نسل کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ایمانداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، کامیابی کے لیے شارٹ کٹ ہی بہترین راستہ ہے۔

پاکستان میں کرپشن کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ کوئی بھی حکومت مکمل طور پر اس کا خاتمہ نہیں کر سکی۔ ہر آنے والی حکومت احتساب کا نعرہ لگاتی ہے، مگر عملاً وہی پرانے چہرے، پرانے ہتھکنڈے اور پرانی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں۔ کرپشن ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جو نظام کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور بدقسمتی سے ہم اس کو "سمجھداری"، "قابلیت" اور "چالاکی" کا نام دے کر سراہنے لگے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس حسین چہرے کے پیچھے چھپی بدصورتی کو پہچاننے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہمارا شعور اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ ہم لٹیروں اور رہنماؤں کے درمیان فرق کر سکیں؟ جب تک عوام اس فرق کو نہیں سمجھیں گے، تب تک کرپشن کے یہ حسین چہرے ہمیں لبھاتے رہیں گے اور ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے مستقبل کو دیمک لگاتے رہیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کو صرف ایک جرم نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ناسور سمجھا جائے۔ تعلیمی اداروں، میڈیا، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو اس معاملے میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہمیں کرپٹ عناصر کو مسترد کرنا ہوگا۔ بیوروکریسی میں ایماندار افسران کی حوصلہ افزائی اور کرپٹ عناصر کی سرکوبی ضروری ہے۔

اگر ہم نے اس حسین چہرے کے پیچھے چھپے اصل چہرے کو بےنقاب نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب کرپشن ہماری پہچان بن جائے گی اور دنیا ہمیں ایک ایسا ملک سمجھے گی جہاں دیانتداری ایک کمزوری اور کرپشن ایک ہنر تصور کی جاتی ہے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan