Column Navees
کالم نویس
کالم نویس قارئین کو کسی بھی مسئلے کے بارے میں وضاحت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ذہنی طور پر بغیر کسی طرح کی ترغیب دیے انہیں ان کے حل کے لیے بھی تیار کرتا ہے۔ کالم نویس ان مسائل پر کافی غور فکر کرنے کے بعد رائے قائم کرتا ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ کالم نویس کی ذاتی رائے ہوتی ہے کیونکہ کہ وہ اس میں ہر لفظ اپنی رائے کے خمیر سے نکال کر لکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کو کالم نویس کی ذاتی رائے سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ حق کا متلاشی، حق گو اور حق پرست ہوتا ہے۔ کالم نویس کا اسلوب خاص طور پر واضح کم مشابہت رکھتا ہے۔
کالم نویس ہر لفظ کا درمیانی فاصلہ بھی کسی وجہ سے رکھتا اور اس کو بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ یہ فاصلہ کیوں اتنا رکھا گیا ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہیں اور اگر یہ اتنا نہ ہو تو اس بات کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ کالم نویس جس مسئلے کے بارے میں بھی جو کچھ کہتا ہے وہ اس کی پختہ آرا ہوتی ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی۔ کیونکہ کالم نویس کبھی وقتی طور پر کسی بات سے متاثر ہو کر وہ بات نہیں لکھتا وہ ہر بات، ہر لفظ کو سننے کے ساتھ ساتھ سمجھتے ہوئے اس لمحے کو محسوس کرتا ہے اور خود کو اس جگہ پر تصور کرتا ہے اور پھر اس پر غور فکر کرنے کے بعد آرا قائم کرتا ہے اور پھر اس سب کو لفظی معنی میں لکھتا ہے۔
کالم نویس ہر بات کو وفاداری کے ساتھ اور دلائل و براہین کی مدد سے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ قارئین اس پر مکمل غوروخوض کر کے ہر اس بات کی صحیح نوعیت تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اس کو مکمل غور سے پڑھیں اور اپنی رائے قائم کرنے پر مجبور ہوں جو کے سوچ اور آرا قائم کرنے سے ہوتی جو کہ کالم نویس کے لکھے گئے کالم سے اتفاق کرنے سے بھی قائم ہو سکتی ہے اور نااتفاقی سے بھی۔
کالم نویس اپنی آرا کے مطابق لکھتا ہے اور اس کے خیالات آزاد اور لہر میں چل رہے ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو اپنی آرا کے خمیر سے نکال کر لکھتا ہے اور واضح کرتا ہے۔ وہ اپنے مطالعے، مشاہدے اور غوروفکر سے کئی ایسے ایسے پہلو سامنے لا کر رکھ دیتا ہے جو کبھی سوچ میں بھی نہ آتے ہوں کالم نویس ہر لفظ ہر فقرہ پوری ذمہ داری کے ساتھ لکھتا ہے۔
کالم نویس اپنے قارئین کے ساتھ تعلق بنائے رکھنے کے لیے ہر طرح کے کالم لکھتا ہے جو کہ قارئین کو کالم نویس کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں اور دلی خوشی کا بھی احساس دلاتے ہیں۔
کالم نویس اپنے ہر عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھتا ہے اسکی سوچ اور غوروفکر کبھی رکتی نہیں ہے اس کے کالم لکھنے میں تاخیر کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس نے اس عمل کو روک یا چھوڑ دیا بلکہ وہ کچھ مختلف اور گہری لہر میں چل رہا ہوتا ہے اور عین وقت آنے پر وہ اس کو واضح کرنے کے لیے تیاری کررہا ہوتا ہے۔ ہر اک چھوٹے سے چھوٹی بات، لفظ، واقعہ اس کی آرا کی دوڑ میں شامل ہوتا چلا جاتا ہے۔
کالم نویس کو اہمیت دینا یا نہ دینا اس کے الفاظ سے بھی زیادہ اس کی قائم کردہ آرا سے بندھی ہوتی ہے۔ کالم نویس کی آرا کا تقاضا لگا کر ہی کالم نویسوں کو اہم صحافی اور دانشور سمجھا جاتا ہے جن کی آرا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کالم نویس کی رائے کی بہت اہمیت مانی جاتی ہے اور انکی رائے دنیا کے ہر مسئلے پر جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کالم نویس نہ تو کوئی جادوگر ہوتا ہے، نہ کوئی آگ لگانے والا نہ کوئی چکر جھولا اور نہ کوئی تیل چھڑک ہوتا ہے بس اس کے سوچنے کا انداز اور اس کے مطالعے کا آغاز مختلف ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ یہ بس سے باہر کی بات ہے بلکے انسان کے بس میں کیا ہے یہ بھی کالم نویس جان چکا ہوتا ہے۔
کالم نویسوں نے بہت نام کمایا ہے اور یہ شعبہ ختم نہیں ہو سکتا ہے جب تک یہ کائنات خداوندی چل رہی ہے کیونکہ کہ کالم نویسی کا عمل انسانی سوچ پر قائم ہے اور انسانی سوچ تب تک چلتی رہے گی جب تک انسانی سانس اور کائنات خداوند۔
کالم نویس کا اپنے رب کی کائنات کودیکھنے کا انداز بہت مختلف ہوتا ہے اور اس کے لیے کوئی چیز بھی حقیقت سے باہر نہیں لگتی بہت ہمت اور بہادرانہ انداز میں وہ ہر بات کو سچائی میں پروتے ہوئے کہے اور لکھتے چلے جاتے ہیں۔
کالم نویس کا قارئین کے ساتھ دل و جان کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ شفقت، برداشت، نرمی انکے لہجے میں وقتاً فوقتاً بڑھتی چلی جاتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ انکے لیے کوئی بھی شخص عام نہیں ہوتا ہر شخص اک گورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے اور اس کو صاف اور شفاف سمجھا جاتا ہے۔ جب تک اس کا عمل ہر چیز واضح نہ کرے۔
کالم نویس کی ذاتی زندگی میں کوئی بھی مفاد نہیں رہتا اس کی اپنی نظر میں۔ وہ بس بانٹنے میں مصروف ہو جاتا ہے کچھ بھی لینا اس کی فطرت کے مترادف ہوتا چلا جاتا ہے بل آخر اپنے رب کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اس جہاں سے اجازت لینا چاہتا ہے اور بحکم خدا اس جہاں سے کوچ کر جاتا ہے۔