Bebasi Ki Tasveeren Aur Selab Ki Kahani
بے بسی کی تصویریں اور سیلاب کی کہانی

پاکستان میں ہر سال برسات کا موسم آتے ہی ایک عجیب سی کیفیت جنم لیتی ہے۔ وہ بارشیں جو زمین کو شاداب کرنے، کھیتوں کو سرسبز بنانے اور دریاؤں کو زندگی دینے کے لیے نازل ہوتی ہیں، وہی بارشیں ہمارے لیے وبالِ جان بن جاتی ہیں۔ اس سال بھی وہی ہوا جو برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ آسمان سے برستی بوندیں لمحہ بھر میں طوفان کا روپ دھار لیتی ہیں، دریا اور نالے ابل پڑتے ہیں اور بستیاں پانی کے بے رحم ریلاؤں کی نذر ہو جاتی ہیں اور پھر شروع ہوتی ہے ایک ایسی داستان جس کے ہر صفحے پر صرف عوام کی بے بسی، بے چارگی اور سوالیہ نشان درج ہوتے ہیں۔
یہ کوئی نئی کہانی نہیں، دہائیوں پرانی فلم ہے جس کے کردار بدل جاتے ہیں لیکن مناظر وہی رہتے ہیں۔ حکومتیں بدلتی ہیں، وعدے نئے کیے جاتے ہیں، اعلانات کے ڈھیر لگتے ہیں مگر جب پانی اپنے راستے میں سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے تو غریب عوام ہی اپنی زندگیوں کے ملبے تلے دب جاتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے پاس نہ کوئی محفوظ گھر ہے، نہ پختہ چھت، نہ ہی کوئی متبادل سہولت، وہی سب سے پہلے اس آفت کی لپیٹ میں آتے ہیں۔
گاؤں کے کچے مکان لمحوں میں زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ کھیتوں میں کھڑی فصلیں جو کسان کے پورے سال کی محنت ہوتی ہیں، سیلابی ریلوں میں یوں غائب ہو جاتی ہیں جیسے کبھی تھیں ہی نہیں۔ مویشی، جو دیہاتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ بچے، عورتیں اور بزرگ جان بچانے کے لیے درختوں اور چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے انسان اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوگیا ہو اور زندگی کی کوئی ضمانت باقی نہ رہی ہو۔
اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ ہر سال سیلاب کی پیش گوئی پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ محکمۂ موسمیات اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی وارننگز جاری کرتی ہیں، لیکن ان وارننگز کا عملی فائدہ عوام کو کبھی نہیں ملتا۔ نہ ہی وقت پر نکاسیٔ آب کے انتظامات ہوتے ہیں، نہ ہی پشتوں کی مرمت اور نہ ہی کسی منظم منصوبہ بندی کے تحت متاثرہ علاقوں کو محفوظ بنایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب پانی آتا ہے تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے اور حکومتی ادارے صرف دورے کرنے، کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر تصاویر بنوانے اور اعلان کرنے تک محدود رہ جاتے ہیں۔
عوام کی بے بسی کا سب سے بڑا منظر وہ ہوتا ہے جب ایک طرف متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے، بھوکے پیاسے اور بیمار پڑے ہوتے ہیں اور دوسری طرف امداد کے ٹرک شہروں کے بڑے میدانوں میں فوٹو سیشن کے بعد واپس مڑ جاتے ہیں۔ اصل حقدار تک نہ راشن پہنچتا ہے، نہ ادویات، نہ ہی محفوظ پناہ گاہ۔ لوگ گھنٹوں پانی میں کھڑے رہنے کے باعث وبائی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مچھر، گندہ پانی، آلودہ خوراک اور صفائی کے فقدان سے بیماریاں پھیلتی ہیں لیکن ان کے علاج کے لیے نہ ڈاکٹر دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی دوائیں۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی نظام صرف کاغذوں میں موجود ہے۔ بڑے بڑے دعوے اور اعلانات تو ہوتے ہیں لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی آج بھی سوال کرتا ہے کہ اگر اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتے ہیں تو آخر یہ رقم عوامی تحفظ پر کیوں نہیں لگتی؟ کیوں ہمارے دیہات اور قصبے ہر سال پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور کیوں ان کے مکین ہمیشہ اپنی قسمت پر روتے رہتے ہیں؟
سیلاب کی تباہ کاریوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ متاثرین کی زندگی سے امید چھین لیتا ہے۔ جب کوئی کسان اپنی فصل برباد ہوتے دیکھتا ہے، جب کوئی ماں اپنے بچے کو پانی میں بہتا دیکھتی ہے، جب کوئی بزرگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو مٹی اور پانی میں دفن ہوتے دیکھتا ہے تو اس کے دل پر جو گزر جاتی ہے، اس کا اندازہ الفاظ میں نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ صرف اپنے نصیب کو کوستا رہ جاتا ہے اور ریاست کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیلاب کو محض ایک قدرتی آفت سمجھ کر بھلا نہ دیا جائے بلکہ اسے قومی المیہ سمجھا جائے۔ پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا نظام مضبوط اور فعال ہونا چاہیے۔ دریاؤں کے کنارے مضبوط پشتے، نکاسیٔ آب کے لیے جدید نظام، متاثرہ علاقوں میں بروقت خیمہ بستیاں اور ایمرجنسی ہیلتھ یونٹس قائم کرنا ناگزیر ہے۔ یہ کام محض امدادی سرگرمیوں سے مکمل نہیں ہوگا بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
عوام کی بے بسی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت محض اعلانات نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کرے۔ شفافیت کے ساتھ امداد اصل حقدار تک پہنچائی جائے، سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے اور مستقل بنیادوں پر ایسا نظام بنایا جائے جس سے ہر سال ہم انہی مناظر کا شکار نہ ہوں۔
اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والے برسوں میں بھی ہم یہی کالم لکھ رہے ہوں گے، یہی مناظر دیکھ رہے ہوں گے اور عوام اسی طرح اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہوں گے۔

