Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Bazar e Husn Az Munshi Premchand

Bazar e Husn Az Munshi Premchand

بازار حسن از منشی پریم چند

یہ پریم چند کا پہلا ناول ہے جو میری نظر سے گزرا ہے اس سے پہلے میں منشی پریم چند کی آپ بیتی پڑھ چکا ہوں جو کہ مدن گوپال اور پریمُ چند کے اشتراک سے سامنے آئی تھی۔ آپ بیتی پڑھنے کے بعد منشی صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلو اس ناول کے کرداروں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔

یہ کہانی ایک امنگوں سے بھرپور لڑکی کی کہانی ہے جو آنکھوں میں بڑے بڑے خواب سجائے شادی کے بندھن میں بندھتی ہے۔ شادی کے بعد اس پر حقیقت آشکار ہوتی ہے کہُ جس شوہر کو وہُ بھگوان سمجھتی ہے وہ اس کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس پر طرہ اس کے محلے کی ایک طوائف جس کی زندگی کی چکا چوند دیکھ کر اسکی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ منشی پریم چند ایک حسن پرست آدمی تھے (جو ان کی آپ بیتی میں پڑھنے کو ملتا ہے) اور ان کی شادی ایک بدصورت لڑکی سے ہو جاتی ہے۔ ایسے بے جوڑ رشتے اس ناول میں بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کے نتیجے میں جو خانگی بدمزگیاں اور زیادتیاں سامنے آتی ہیں، ان کا احاطہ منشی صاحب نے خوبصورتی سے کیا ہے۔

نئی اور پرانی نسل کے درمیان کشمکش اس ناول کا دوسرا اہم موضوع ہے۔ آج سے ستر اسی برس پہلے کا ناول پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک اس کے حل کا کوئی امکان مظر نہیں آتا۔ اس کے بعد مصنف نے شہر معززین اور طوائف کی جو تعریف کی ہے وہ انسان کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہے۔ ناول کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ شورش کاشمیری کی کتاب "اس بازار میں" شاید اسی ناول سے متاثر ہوُکر لکھی گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ایک کہانی ہے جبکہ کاشمیری صاحب نے اس بازار کی سات سال خاک چھاننے کے بعد ہمارے سامنے طوائفوں کے حالات پیش کیے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ انھوں نے شہر کے شریفوں کی بھی خوب گرفت کئی ہے کہ طوائف کو طوائف بناتا کون ہے؟ اسے بازار میں لا کر بٹھاتا کون ہے؟ اس کے گاہک کون لوگ ہیں؟ وہی لوگ جو شہر معززین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جنھیں ہر شادی بیاہ مرگ و روکے پر سب سے آگے کرسی دی جاتی ہے۔ جن کے آشیرواد سے سارے اچھے کام انجام پاتے ہیں۔ وہی ان مجبور عورتوں کے دھندے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگر وہ معزز شہری ہیں تو طوائفیں بھی اسی عزت کی حقدار ہیں ورنہ ان معززین کو بھی ان کے ساتھ ہی شہر بدر کر دینا چاہیے۔

اس کے بعد اس ناول میں ایک اور پڑھنے والی چیز رواج اور اصولوں کے درمیان جنگ ہے۔ رواج جو اتنے دور تک معاشرے میں گڑھ چکے ہیں کہ ان کے سامنے حق سچ کے تمام اصول پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ جو کوئی بندہ اصولوں کی پرواہ کرتا ہے رواج اس کی مٹی پلید کر دیتے ہیں اور وہ چار و ناچار رواجوں سے ہار جاتا ہے۔

اس کے بعد کسبیوں کے مذہب کے اوپر سیاست بھی اس ناول کو جاندار بنا دیتی ہے۔ منشی پریم چند جو کہ مسلمان دشمنی کے لیے مشہور ہیں وہ بہت خوبصورتی سے تمام کی تمام طوائفوں کو مسلمان دکھاتے ہیں اور تمام ہندو لڑکیاں ان کے نزدیک رام کی داسیاں ہیں۔ جو اپنے مذہب کے نام پر کٹ مرنے کوُ تیار ہیں جبکہ مسلمان لڑکیوں کو آسانی سے بہلا پھسلا کر طوائف بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد جو ہندو اور مسلمان لیڈران طوائفوں پر سیاست کرتے ہیں، وہ یہ باور کروا دیتے ہیں سیاستدان کا مذہب صرف اور صرف اس کی کرسی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر چیز کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔

Check Also

Eid Ul Fitr Ka Azeem Din Zaya Mat Kijye Ga

By Muhammad Zeashan Butt