Zamana Kharab Hai?
زمانہ خراب ہے؟
ایک شخص سے کسی نے عمر پوچھی۔ جواب ملا یہی کوئی چار پانچ سو برس۔
لیکن شکل سے تو آپ پچاس سے زیادہ کے نہیں لگ رہے؟
تو اس نے جواب دیا۔ میں بہت زیادہ مطالعہ کرتا ہوں۔ مجھے ایسے لگتا ہے پچھلی چار پانچ صدیاں گزار کر آیا ہوں۔۔
مجھے بھی پڑھنے کا شوق ہے۔ بلکہ جنون ہے۔ مجھے بھی ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے پچھلے ڈیڑھ دو سو برس کے زمانے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا ہوں۔
مجھے ان صدیوں میں کبھی بھی نہیں لگا کہ حالات اچھے جا رپے ہیں۔
شیواجی نے اورنگ زیب کے خلاف علم بغاوت اٹھاتے وقت الزام لگایا تھا کہ امن عامہ کی صورتحال بدترین ہوچکی ہے۔ قیمتی سامان کے ساتھ کوئی ریاست کے اندر سفر نہیں کر سکتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول کا ایک کردار سکے پر بنی ملکہ وکٹوریہ کی شبیہ کو مخاطب ہوکر دھائی دیتا ہے کہ اس سر کٹی ملکہ نے غربیوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ غضب خدا کا اتنی مہنگائی۔۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد لگتا تھا کہ غریب مہنگائی سے بھوکا مر جائے گا۔۔
میرے پاس اخبارات کا کوئی ساٹھ سال کا ریکارڈ جمع تھا۔
جس میں لڑکیوں کے نام شین نون فے کے ساتھ لکھ کر ان کے بارے خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ میرے پاس اب بھی سو سال پرانے اخبار اور میگزین موجود ہیں۔ سوانح عمریوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے بھی لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادی کرلیا کرتی تھیں اور شادی کے بغیر اس زمانے میں بھی لڑکیاں حاملہ ہوجایا کرتی تھیں۔۔
کچڑے کے ڈھیڑوں سے ناجائز بچے یا ان کی لاشیں ملا کرتی تھیں چوباروں پر باغوں میں چھپ چھپ کر ملنے والے جوڑے بھی ہر دور میں موجود تھے جس زمانے میں نہ کالج تھے نہ یونیورسٹیاں اس زمانے میں بھی ہر شہر میں ہیر رانجھا شیریں فرہاد پیدا ہوجاتے تھے۔ اس زمانے میں بھی راہ چلتے صرف ہاتھوں اور پائوں کو دیکھ کر عشق ہوجایا کرتے تھے۔ امیر خاندان کی لڑکی بالو کوچوان کے بیٹے کے ساتھ گھر سے بھاگ جایا کرتی تھی۔۔
ایک صحابی رسول ﷺ نے حدیث سنائی کہ عورتیں اگر نماز کیلئے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو۔ ان کے بیٹے نے عذر پیش کیا کہ وہ تو نبی کا زمانہ تھا۔ اب مکر کرکے پتا نہیں کیا کریں۔
زمانہ تو بہت پہلے خراب ہوگیا تھا۔۔
یہ ساری تمہید میں نے باندھی ہے ان لوگوں کیلئے جو کالجز یونیوسٹیز ہوسٹلوں کے واقعات اور حالات دیکھ ڈر جاتے ہیں اور اپنی بہنوں بیٹیوں کے بارے حساس ہوجاتے ہیں۔ تفکرات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جناب یہ جو حالات تھے یہ کبھی بھی اچھے نہیں رہے کسی دور میں بھی نہیں۔ اس کا حل اپنی اولاد کی تربیت ہے۔ اگر آپ کو اپنی بیٹی بہن کی تربیت میں کوئی شک نہیں تو یقین جانیں وہ آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گی۔
جس نے عزت کا جنازہ نکالنا ہے۔ اس کیلئے صرف ایک موبائل کافی ہے اور یقین جانیں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ریل کی شکل میں جن لڑکیوں نے ادھم مچایا ہوا ہے وہ کسی یونیورسٹی کالج نہیں گئی ہیں۔
اگر آپ نے اپنے بچوں کے تربیت پر دھیان رکھا ہے۔ ان کو وقت دیا ہے ان کو اعتماد دیا ہے تو کالج یونیوسٹی میں بھی وہ اپنی اور آپکے وقار اور عزت کی حفاظت کریں گے ان شاءاللہ
جملہ معترضہ
موبائل کی آمد سے پہلے کا قصہ سن لیں۔ ایک لڑکا اور لڑکی جب اپنے والدین کو راضی کرنے میں ناکام رہے تو بھاگ کر شادی کا ارادہ کیا۔۔ لیکن مسئلہ تھا کہ بھاگنے میں اتنی مہلت مل جائے شہر سے نکل سکیں اور کسی کو خبر نہ ہو۔ لڑکا وھابی تھا اس نے لڑکی کو قریبی مسجد تراویح پڑھنے پر لگا دیا۔ جب گھر والوں کا اعتماد بن گیا کہ تراویح مکمل ہونے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے۔۔ تو ایک دن گھر سے نکلی اور سیدھی بس اڈے پر اور جب تک غائب ہونے کی خبر نکلی شہر سے نکل چکے تھے۔۔
بہت سال پہلے ایک بہت بڑے دیندار گھرانے کی لڑکی نے گھر سے بھاگ کر شادی کرلی تو والدین نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔۔
جی ہاں میں بات کر رھا ہوں صائمہ ارشد کیس کا۔ اس کیس میں صائمہ نے عدالت کے سامنے اپنے والد سے کچھ سوال پوچھے تھے۔ اگر کسی کو یاد ہوں تو کمنٹ میں لکھ دے۔۔ ان سوالوں کے جواب میں ہمارے آج کے اس خراب ماحول سے بچنے کا حل موجود ہے۔۔