Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Sajda e Sahw

Sajda e Sahw

سجدہ سہو

پٹواری صاحب چند دنوں سے کافی پریشان تھے۔ پریشانی کی وجہ ان کی طبیعت کی ناسازی تھی۔ بیماری بھی ایسی کہ کوئی سرا مل ہی نہیں رہا تھا۔ ہر وقت جسم میں تھکاوٹ اور طبیعت میں سستی۔ پہلے تومیں ہمیشہ ذہنی تناؤ کا بتا کر ٹال جاتا تھا پھر میرے کہنے پر فیصل آباد کارڈیک سنٹر سے بھی ہو آئے لیکن کچھ نہ نکلا۔

میڈیسن والوں نے سارے ٹسٹوں کے بعد ڈپریشن کی دوائیوں پر ڈال دیا۔ لیکن پٹواری صاحب کی شکائیت وہیں کی وہیں رہی۔

ابھی یہ عقدہ حل نہیں ہوا تھا کہ ایک دن صبح پانچ بجے پٹواری صاحب کی کال آئی اور مجھے فوراً اپنے گھر آنے کی درخواست کی۔ میں پہنچا تو پتا چلا کہ ان کی بیٹی نے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں اور اب بے ہوش ہے۔ معائینے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے کہ جان لیوا ثابت ہو۔ اور تسلی دی کہ جونہی گولیوں کا اثر ختم ہوگا تو یہ ہوش میں آجائی گی۔

یہ کوئی ایک ہفتہ بعد کی بات ہے جب پٹواری صاحب میرے کلینک تشریف لائے اور مجھے اگلی شام اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ کہ بیٹی کا نکاح ہے میں نے صرف چند مہمانوں کو بلایا ہے آپ نے ضرور آنا ہے۔ میرے سوالیہ چہرے کو دیکھ کر مسکرا دئیے اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول اٹھے۔ کسی دن آپ سے تفصیل سے بات کروں گا۔

اگلے دن چند دوستوں اور کچھ رشتہ داروں کی موجودگی میں نکاح ہوا۔ جتنی سادگی سے نکاح ہوا اتنی سادگی سے رخصتی ہوگئی۔ اور میں ذہن میں سوالیہ نشانوں کی قطار لئے اپنے گھر لوٹ آیا۔

اگلے چند دن اسی تشنگی میں گزارے کہ اصل حقائق تک کب رسائی ہوگی۔ جب ایک شام پٹواری صاحب آئے اور آتے ہی چائے کی فرمائش کی جس کا مطلب تھا کہ آج وہ جلدی میں نہیں ہیں۔ بولے ڈاکٹر صاحب آپ یقیناً ان واقعات کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہونگے جو چند دنوں سے میرے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ گویا ہوئے

"آپ کو یاد ہوگا کہ کہ میں کچھ عرصے سے اپنی طبیعت کے بارے میں بہت پریشان تھا۔ بات یہ ہوئی تھی کہ میری رات کو سونے سے پہلے دودھ پینے کی عادت کا فائدہ اٹھا کر میری بیٹی نے ملازمہ کی مدد سے دودھ میں نیند کی گولیاں ملانا شروع کر دی تھیں اور خود رات کے لمحات اپنے دوست اور موجودہ خاوند کے ساتھ گزارنا شروع کر دئے تھے۔ جس دن میں آپ کو صبح سویرے بلایا تھا اس دن کام زیادہ ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ تھی اور میں دودھ پئے بغیر سو گیا آدھی رات کو اٹھا تو مجھ پر بہت سی حقیقتیں کھلیں۔ غصے کا یہ عالم تھا کہ میری زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے مجھے آج بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ میں ان کو فور اً قتل کیوں نہیں کر سکا۔ لڑکا تو فوراً بھاگ گیا تھا، بیٹی کو کمرے میں بند کرکے اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کی ماں کو جگایا اور غصے میں اس کو بھی کمرے سے نکال دیا۔ غیرت کے نشے میں اپنی عزت کو بچانے کیلئے بیٹی کو قتل کرنے اور واقعے کو چھپانے کے طریقوں پر غور کر رہا تھا کہ اس کی ماں چیختی کمرے میں آئی کہ بیٹی بیہوش ہے اور پھر آپ کو بلانا پڑا۔

آپ کے جانے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ ساری عمر تو گھر میں حرام آیا ہے۔ جوگھر حرام کی کمائی سے چل رہا ہو وہاں کی حفاظت کیا فرشتے کریں گے؟ کیا ان گھروں میں فاطمہ یا رابعہ بصری پیدا ہونگی؟ اب خانداں کی عزت میرے ہاتھ میں ہے کیا اس کو مار دینے سے یہ محفوظ ہو جائے گی؟ اس کو قتل کے بعد تو میں ساری عمر بھی اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتا رہوں تو شائد ان کو معاف نہ کرا سکوں گا"۔

پٹواری صاحب نے ایک لمبی آہ بھری۔ چائے کے کپ کی آخری چسکی لی اور بولے " ابھی تو میں نے ایک کفارہ ادا کیا ہے، ابھی بیشمار ادا کرنے ہیں۔ میرے لئے دعا کیجئے گا، اپنی نوکری چھوڑنے کا سوچ رھا ہوں"۔

پٹواری صاحب نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور اجازت لیکر رخصت ہو گئے لیکن میں دیر تک یہ سوچتا رہا اس دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ کتنے ہوں گے جن کو مرنے سے پہلے سجدہ سہو ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat