Petiyan Aur Purane Akhbar
پیٹیاں اور پرانے اخبار
چند سال پہلے لکھے گئے اس مضمون میں پچھلے چالیس سال سے حالات کے تبدیل نہ ہونے کو رونا رویا تھا۔ اب جب پچھلی صدی کے اخبارات و میگزین کھنگالے ہیں تو پتا چلا ہے کہ یہاں تو ڈیڑھ سو سال بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا۔۔ بہرحال میں پھر بھی پر امید ہوں۔
ہمارے شہروں میں عمو ماً اور دیہاتوں میں خصوصاً دستی چادروں سے بنی پیٹیاں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ پیٹیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک تو سردیوں کے کپڑے، رضائیاں، کھیس سنبھالنے کے کام آتی ہیں۔ سارا سال بند رہنے کے بعد سردیوں کے شروع میں یہ پیٹیاں کھول کر سارا سامان نکال کر دھوپ لگوائی جاتی ہے اور سردیوں کے بعد اسی طرح دھوپ لگوا کر، فینائل کی گولیاں لکھ کر ان کو دوبارہ بند کردیا جاتا ہے۔
دوسری قسم کی پیٹیوں میں سامان کی نوعیت تو پہلی پیٹیوں جیسی ہوتی ہے لیکن ان کا استعمال صرف اس وقت ہوتا ہے جب گھر میں کوئی مہمان آتا ہے یا محلے میں کوئی شادی ہوتی ہے۔۔ ان پیٹیوں میں جب سامان رکھا جاتا ہے تو پہلے پرانی اخبار بچھا دی جاتی ہیں، پھر فینائل کی گولیاں رکھی جاتی ہیں اور جن پیٹیوں کا استعمال سالانہ ہوتا ہے ان کی اخباریں تو عموماً سال بعد تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن مہمانوں والی پیٹیوں کے اخبار کئی کئی سال تبدیل نہیں ہوتے۔ کیونکہ یا تو وہ کھلتی ہی نہیں اور اگر کھلیں بھی تو ایک آدھ چیز استعمال ہوتی ہے۔
کبھی کبھی یہ اخبار اتنی قدیم ہوتے ہیں کہ شائد خود اخبار والوں کے ریکارڈ میں بھی نہ ہوں۔ سردیوں کے آغاز پر نکلنے والے یہ اخبار ہمیشہ میری دلچسپی کا مرکز رہے ہیں۔ رشتے دار ہوں یا محلے دار، میری اس دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخباریں مجھ تک پہنچتی رہی ہیں۔ اور ان اخباروں اور تراشوں کا ایک وسیع ذخیرہ میرے پاس جمع رہا ہے۔ ان پرانی اخباروں کا تعلق بھٹو کے دور حکومت سے ہے، جنرل ضیا، بینظیر بھٹواور نواز شریف دور سے ہے۔ ایک دو صفحات ایوب دور سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
ان اخباروں کی ورق گردانی سے ناصرف کچھ حقائق سے واسطہ پڑتا ہے بلکہ بہت سی دلچسپ معلومات سے بھی آگہی ہوتی ہے۔۔ لیکن سارے ادوار سے گزر کر ایک بات واضح ہوتی ہے کہ عوام کے مسائل ان چالیس سالوں میں تبدیل نہیں ہوئے۔ مہنگائی، جرائم میں اضافہ، لاقانونیت، کرپشن، بیروزگاری کی داستانیں سب کچھ آج بھی ویسا ہے جیسا ایوب دور میں تھا۔ اور یقیناً اس پہلے بھی ہونگے۔۔
نواز شریف کے پہلے دور میں آٹے کے بحران نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، سیلاب کی تباہ کاریاں، جرائم اور ڈی نیشنلائزیشن کی خبریں کافی جگہ لیتی رہیں۔
بے نظیر دور میں میوزک 89 نے حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں تھیں حتی کہ وزیر اعظم کو اس کی ریکارڈنگ منگوا کر دیکھنا پڑی کہ آخر وزارت اطلاعات نے کون سے گناہ کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔
اڈیٹر کے نام ایک خط میں نیوز کاسٹر کے سر سے ڈھلکتے آنچل پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ کہ آجکل ان کے سر کے بال کافی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ضیا دور میں ایک اڈیٹر کے نام خط میں عشاہ کی اذان کو ہاکی میچ کی وجہ نشر نہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اشتہاروں کی وجہ سے وقت اوپر نیچے نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔۔
اسی دور میں چھپنے والے ایک مضمون میں فلموں میں بڑھتی ہوئی فحاشی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور بطور مثال کچھ فلموں کے نام اور سین کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
ایک خبر میں ٹرانسپورٹ کے بڑھائے گئے کرایوں کو عوام کے ساتھ زیادتی قرار دیا گیاہے۔
ایک مضمون نگار نے نہایت سہمے ہوئے انداز میں طلباء تنظیموں پر پابندی پر حکومت سے نظر ثانی کی درخواست کی گئی ہے۔
ضیا دور میں زیادہ تر خبروں کا تعلق سماجی ادبی محفلوں کی کاروائی، تاجر تنظیموں کے مطالبے، سیرت کانفرنس اور یوم ٓازادی کی تقاریب کی روداد، وزیروں کی کالجوں میں ہونے والی مجالس سے خطاب نماز کمیٹیوں کی کارکردگی، سماجی کارکنوں کے بیانات سے تھا۔ خبروں اور موضوعات کی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انار کلی میں قتل ہونے والے ایک تاجر کی کہانی اور اور اور اس پر ہونے والی روزانہ کی کاروائی کئی ماہ تک نوائے وقت کے صفحہ اول کی زینت بنتی رہی تھی۔
بھٹو دور کے آخری دنوں میں الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کی سخت تنقید، اور شفاف اور آزاد الیکشن کی ضرورت پر اخبارات بھری پڑی تھیں۔ اگر انتخابات میں دھاندلی کی گئی توسولہ دسمبر کا سانحہ دوبارہ دھرائے جانے کا خطرہ بیان کیا گیا ہے۔
ایک اور اخبار کے اداریے میں شراب کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نوجوانوں کی بے راہروی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ایک اخبار میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرپشن اور رشوت کے رجحان پر، حکومت پر سخت تنقید کی گئی ہے ایک مضمون نگار نے مخلوط نظام تعلیم کو ایک طوفان سے تشبیہ دیتے ہوئے خواتین کی الگ یونیورسٹی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک اور اخبار میں چینی کی راشن بندی اور مٹی کے تیل کی عدم دستیابی پر حکومت کو سخت سست قرار دیا ہے۔ اور مسائل سے لاتعلقی اور حکومتی بے حسی کو رنگیلا شاہ کے دور سے ملاتے ہوئے لکھا ہے کہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکی ہے اور حکومت رنگ رلیوں میں مصروف ہے۔
انیس سو بہتر کے ایک اخبار میں اداریہ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم پر ہے۔ ایڈیٹر نے لاقانونیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی پر جو نقشہ کھینچا ہے آج کے اخبار میں بھی چھپ جائے تو کسی کو علم نہیں ہوگا کہ یہ چالیس سال پہلے لکھا گیا تھا۔
انیس سو تہتر کی ایک اخبار کے صفحہ اول پر وحشیانہ قتل کی داستان چھپی ہوئی ہے۔ لرزہ خیز واردات پر علاقے کے لوگوں کا یہ بیان کہ حکومت لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے کو بھی کافی نمایا ں جگہ دی گئی ہے۔
انیس سوچھہتر کے ایک اخبار میں لکھے گئے مضمون میں یہ بتا یاگیا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے لوگوں میں خودکشی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اخبار کے صفحہ اول پر ڈی سی ٖصاحب کے دفتر کے باہر خود سوزی کرنے والے شخص کی خبر خاصی نمایاں ہے۔
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیوں کے نام بھی بھی ف ج کے ناموں سے ملتے ہیں۔
غیرت کی بنیاد پر قتل کی خبریں بھی اندرونی صفحات پر ملتی ہیں۔
لیکن میں حیران ہوں تو اس بات پر کہ کئی دھائیاں بیت گئیں لیکن ہمارے بنیادی مسائل وہی ہیں۔ نا ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ جس کی شرح میں ہر روز اضافہ ہوا ہے لیکن کم و بیش عوام کو ان مسائل کا سامنا ہے جس کا وہ قیام پاکستان سے بھی پہلے سے مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہر سال جب نیا سال آتا ہے تو ہماری عوام یہ امید باندھ لیتی ہے کہ آنے والا سال ہر نعمت لئے چشم راہ ہوگا۔ لذت آفرینی ہوگی۔ نیا سال ایک نیا شعور لے کر آئے گا۔ گمان اور خواب حقیقت میں ڈھلیں گے۔ برس ہا برس کی حسرتیں ہیں مضطرب ایک کیفیت ہے جو شائد اپنی منزل پائیں گی۔ مگر یہ کبھی ہو نہ سکا جو مسائل ہمارے کل تھے وہ آج بھی ہیں اور کاش میرا گمان جھوٹ بول رہا ہو، کل بھی رہیں گے۔
لیکن میں پرامید رہتا ہوں، میرا تصور بھی اثر انگیز ہے، میرے خواب بھی قابل رشک ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ زندگی کی معنویت سے عاری ہوجاؤں۔ اسلئے اب پرانی اخباریں اکھٹی کرنا چھوڑ دیا ہے۔