Mard o Aurat
مرد و عورت
ایک شیر بندر اور بگلہ ایک جگہ انٹرویو دینے گئے۔ ان کو ایک ٹاسک دیا گیا کہ جو اسے پورا کرے گا اسے سیلکٹ کر لیا جائے گا۔۔ ٹاسک تھا۔ سب سے پہلے درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر کون پہنچے گا؟
اس قصے کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ ایک سروے کرتے ہیں۔ آپ اسلام آباد لاہور ملتان ڈیرہ غازی خان صادق آباد سکھر کوئٹہ پشاور چلے جائیں اور لوگوں سے وہاں کے مسائل کے بارے پوچھیں۔ آپکو پتا چلے گا کہ ہر شہر کے چند ایک بنیادی اشوز کے علاوہ سب جگہ الگ الگ مسائل ہیں۔
شہروں میں رہنے والی عورتوں اور دیہی علاقوں کے خواتین سے ان کے مسائل پوچھیں تو آپکو انکے درمیان بھی ایک وسیع خلیج دکھائی دے گی۔۔
اب میں آپکو لے کر چلتا ہوں بھارت میں عام آدمی پارٹی کی طرف۔ جس نے دھلی سے الیکشن لڑتے وقت ہر حلقے کا الگ سے منشور بنایا تھا۔ کیونکہ ان کی نزدیک ہر حلقے کے مسائل ایک جیسے نہیں ہیں۔ اور ایک وقت آیا انہوں نے الیکشن کلین سویپ کرلیا۔۔
اب میں ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ چند سال پہلے ایک بزرگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور گھر سے باہر نکل جاتے اور کسی کو پتھر مار دیا۔ کسی کی ریڑھی سے چیزیں اٹھا لیں۔ کبھی گائوں سے باہر نکل جانا۔ بیٹا مزدور بندہ تھا اور دن بھر مشقت کے بعد جب شام کو گھر واپس آتا تو یا تو باپ کو ڈھونڈنے نکل پڑتا یا پھر گائوں والوں کی شکایتیں سن کر وضاحتیں پیش کرتا پھرتا۔ روز روز کی جھک جھک سے تنگ آکر اس نے باپ کو گھر میں زنجیر سے باندھ دیا۔
چند دن ہی نہیں گزرے تھے کہ ایک مقامی صحافی کو بریکنگ نیوز مل گئی اور پولیس کو لیکر چھاپا مارا اور ذہنی معذور باپ کو بازیاب کروا لیا اور خبر شائع ہوئی جائیداد کی خاطر سنگدل بیٹے کی قید سے زنجیروں میں جکڑا باپ بازیاب۔۔
یہاں آپکو ایک ہی واقعہ کے دو بیانئے مل گئے ہیں۔ ایک میں آپکو مزدور سے ہمدردی پیدا ہوگی اور دوسرے میں اس سے نفرت۔۔
میرا خیال تھا محمود فیاض ضاحب کی کتاب مردو عورت اکسیسویں صدی میں جو ان کے سوشل میڈیا پر لکھی گئی تحریروں کا مجموعہ ہے میں مردوں اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بات کی گئی ہوگی اور دونوں کو ان کی ذمہداریاں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہوگی۔۔
لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ یہ کتاب دراصل آپکو ایک تھری ڈائمشنل مشین پر بٹھا دیتی ہے۔ اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اٹھائی گئی آوازوں کا رخ مختلف زاویوں سے دکھاتی ہے۔۔
بہت برس پہلے میرے ایک دوست کے والد صاحب نے ایک ایسی بات کی تھی جو میرے لئے ایک مشعل راہ بن گئی۔
کہنے لگے۔ ایک علم ہم کتابوں سے حاصل کرتے ہیں ایک علم استادوں سے اور ایک علم لوگوں سے۔۔ اور لوگوں سے حاصل ہونے والا علم سب سے پر اثر ہوتا ہے۔ اور جو شخص جتنا دنیا گھوماہوگا۔ اسکے پاس علم کے اتنے بڑے خزانے ہونگے۔ اور محمود صاحب ان خزانوں سے مالا مال ہیں۔ علم کے ان خزانوں کہ وجہ سے وہ ہر چمکتی چیز سے متاثر نہیں ہوتے۔ اور جب تک اس کو ہر زاوئیے سے پڑکھ نہ لیں۔ اپنی رائے نہیں دیتے۔ اور اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے ان کے علم کی قدر ہوئی ہے۔
کہیں وہ ڈسکس کرتے نظر آتے ہیں کہ کیسے میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے تو کہیں ویمن ایپرومنٹ کے نعروں کے حوالے کئے گئے دعووں کو دلائل سے رد کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں مردوں کی قربانیوں کو گنواتے نظر آتے ہیں اور کہیں عورت کو شکاری مردوں کے شکنجے سے چھڑواتے نظر آتے ہیں۔ کہیں مغرب کی عورت کے مسائل کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں ان کی ہمارے ہاں بتائی جانے والی آزادی کی قیمت سمجھا رہے ہوتے ہیں۔ کہیں بیٹی کی تربیت کے حوالے سے اس کے حقوق کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ تو کہیں مشرقی تہذیب کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی حقیقت بیان کررہے ہوتے ہیں تو کہیں کامیاب ازدواجی زندگی کو معاہدوں کی زنجیر سے چھڑواتے نظر آتے ہیں۔۔
جو چیزیں ہمیں دکھائی جا رہی ہوتی ہیں ضروری نہیں وہ حقیقت ہو۔ اور ایک ہی لاٹھی کے ساتھ ہر معاشرے کو ہانکا نہیں جا سکتا۔ ہر معاشرے کا اپنا الگ سکرپٹ ہوتا ہے۔ اور اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یورپ کے لئے لکھے گئے سکرپٹ کو ہم پاکستانی معاشرے پر اپلائی نہیں کر سکتے۔۔
اور یہی سب باتیں دلائل اور واقعات کے ساتھ اس کتاب میں بیان کی گئی ہیں۔