Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Farishte

Farishte

فرشتے

آپ شائد میری ذہنی حالت پر شک کریں یا میری بات کو مذاق میں اڑا دیں۔ کسی دیوانے کی بڑھک سمجھیں گے یا کسی تخیل پسند کا کوئی خواب لیکن میں جو بتانے جا رہا ہوں وہ حقیقت ہے۔ میں نے فرشتوں کو دیکھا ہے۔

ہاں ایک بار نہیں دو بار۔ یا شائد اس سے بھی زیادہ مرتبہ مگر تب میں ان کو پہچان نہیں پایا ہونگا۔

یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں صبح سویرے کمالیہ سے نکلا ہوں لیکن جب دریا بل کے قریب پہنچا ہوں تو گنے کی ٹرالی الٹی پڑی تھی اور رستہ مکمل طور پر بند تھا اور گنے کی ٹرالی پر جتنا وزن ڈالا ہوتا ہے اس کا اندازہ تو آپ کو ہوگا۔ اور اس کوہٹانے میں شام ہوجانی تھی۔ ابھی میں اسی شش وپنج میں تھا کہ وہاں کھڑے آدمیوں نے ایک راستے کے بارے میں رہنمائی کی کہ اس پر تھوڑا چلنے کے بعد ایک گاؤں آئے گا اور پھر اس سے نکل کر ایک پکی سڑک شروع ہوگی جو آپ کو دوبارہ اسی سڑک پر لے آئے گی۔

اور میں نے گاڑی ان کی بتائی ہوئی سمت موڑ دی۔ کچے رستے پر کوئی دو کلومیٹر چلنے کے بعد ایک گاؤں کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے اور پھر کچھ مکانوں کا سلسلہ۔

بتائی ہوئی ہدائت کے مطابق میں چلتا رہا اور جب گاؤں کے اندر سے تنگ سے رستے سے گزر رہا تھا کہ ایک بکری کے بچے کو رستے میں بیٹھے پایا۔ میرے بار بار ہارن دینے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اور مجھے بریک لگا کر اترنا پڑا۔ جب میں آگے بڑھا ہوں تو مجھ سے پہلے ایک چار یا پانچ سال کی بچی جو شائد کسی مدرسے میں پڑھنے جا رہی تھی۔

جس کی ماں نے بڑی تیاری سے اس کے سر پر رومال باندھ رکھا تھا فراک پہنے ہاتھ میں قاعدہ لئے جھک کر بکری کے بچے پکڑکر اٹھا لیا اور جونہی اس کی نظریں میرے ساتھ چار ہوئیں۔ تو مجھے اس غیر متوقع جگہ پر دیکھ کر اسکے منہ سے بے ساختہ نکل گیا " ڈاکٹر جی، تسی "

اس کے کہنے کے انداز میں اس قدر بے ساختگی اور معصومیت تھی کہ میں نے بے اختیار اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ بکری کا بچہ اس کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگ گیا۔ ہوا میں ایک عارضی سکون تھا۔ کہیں سے چڑیوں کے چہچہانے کی آواز آ رہی تھی۔

اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے سے مجھے حیرت سے دیکھا جیسے صبح رات کی آغوش سے بیدار ہو رہی ہو۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر معصومیت کروٹیں لے رہی تھی۔ میرا دل کسی دریا کی طرح امنڈ آیا تھا۔

محسوس ہو رہا تھا قدرت کائنات کو گدگدا رہی ہے۔ رشک صد گلزار بنا رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں صدا بہار پھول کی شادابی تھی کسی فاختہ کی سی معصومیت۔ میں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تو، چند لمحوں کیلئے وقت اور جسم کی قید سے آزاد ہوگیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں نے کسی فرشتے کوچوم لیاہے۔۔

اس دن دوپہر کو والد صاحب کا فون آیا کہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے اور میں نے گھر جانے کا قصد کیا۔ جولائی کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کا موسم۔ چھوٹی گاڑی کا ائرکنڈشنر تو گرمی کا نام سن کر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔۔ جب تک تو نئی سڑک رہی تو کوئی مشکل درپیش نہ آئی۔ لیکن جونہی پرانی سڑک کا آغاز ہوا، جو خاصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی، گاڑی نے ہچکولے لینے شرو ع کر دیے، بڑے بڑے گڑھوں سے تو بچتا رہا لیکن ایک چھوٹے گڑھے پر کلچ، بریک اور ریس کا بیلنس خراب ہوگیا اور گاڑی ایک جھٹکے سے بند ہوگئی۔

بار بار سلف دیا لیکن گاڑٰ ی نے سٹارٹ ہو نا تھا اور نہ وہ ہوئی اور پسینے میں شرابور باہر نکلا تو لو بھی ایک سرد جھونکے کی طرح محسوس ہوئی۔ دور دور تک کوئی سایہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

کوئی دو فرلانگ پر شائد کوئی پانی کی کھال تھی جس پر چھوٹے بچے کھیلتے دکھائی دیے لیکن اتنے کمسن کہ میری مدد کیلئے بیکار۔ بونٹ کھول کر اٹکل پچو مارنا شروع کر دیا۔ حل ایک ہی تھا کہ گاڑی کو دھکا لگا کر سٹارٹ کیا جائے۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی، کہاں سے دھکے کیلئے مدد ڈھونڈوں۔

اتنے میں ایک آواز آئی مولوی صاحب! کیا گاڑی کو دھکے کی ضرورت ہے؟ میں نے بے اختیار بونٹ کے اوپر سے جھانکا تو ایک کوئی سات سال کا بچہ صرف نیکر پہنے، گیلے جسم کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میرا جواب سن کر اس نے کھیلتے بچوں کی طرف دوڑ لگا دی اور کچھ دیر بعد دو سال سے سات سال کے درمیان ننگ دھرنگ بچے شور مچاتے جمع ہوگئے۔ کچھ نے نیکرپہن رکھی تھی، کوئی جانگیہ میں اور کچھ فطری لباس میں تھے۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا اور انہوں نے گاڑی کو دھکا لگانا شروع کر دیا۔ گاڑی کھڑ، کھڑ کرتی سٹارٹ ہوگئی۔

اسے سٹارٹ حالت میں چھوڑ کر باہر نکلا۔ میرا ارادہ تھا کہ ان کو کچھ پیسے دوں۔ جو میری مدد کو دوڑے چلے آئے تھے۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر اچنبھا ہوا کہ سب غائب ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے مدد کو آنے والا بچہ نظر آیا تو میں نے اسے آواز دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور میرے ہاتھ میں پرس دیکھ کر انکار میں سر ہلاتا الٹے قدموں لوٹنے لگا۔

اس کے انکار میں ہلتے سر، اس کی آنکھوں سے ابھرتے شرارت کے شرارے دیر تک میری آنکھوں کے سامنے جلتے رہے۔ گرم ہوا کے بگھولے کسی خوشگوار جھونکوں میں بدل گئے تھے۔ میں خود کو کسی لازوال رشتے میں بندھا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ یگانگت کا ایک احساس تھا جو میرے سارے جسم میں رقصاں تھا۔ اس کی دلنواز مسکراہٹ اور ادائے لا تعلقی میرے دل پر اثر کر گئی۔ اسکی روح کی لطافت کا احساس کسی الہام کی طرح میرے اندر اتر رہا تھا۔ اس کے بے لباس جسم میں بھی ایک ادا تھی ایک بے ساختگی تھی۔ وقت کی گھڑیاں تھم گئی تھیں اور زندگی منجمند ہوگئی تھی۔ وہ چند لمحے تھے یا شائد چند ساعتیں، لیکن میرے لئے صدیاں بن گئیں۔ میں جانتا تھا آج کے بعد اس بے نشان کا نشان ڈھوندنا مشکل ہوگا۔

لیکن میں ایک فرشتے سے مل چکا تھا۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra