Diary Ke Auraq
ڈائری کے اوراق
لوگ کہتے ہیں میری روح میں ایک بوڑھا انسان چھپ گیا ہے۔ میری سوچوں میں ایک تھکن ہے۔ میرے ارادوں میں پہلے جیسی تڑپ باقی نہیں ہے۔ میں الجھا رہتا ہوں۔ کہیں کھویا رہتا ہوں۔ میری باتوں میں دل دھڑکتا تھا۔ لیکن اب وہ دھڑکن سنائی نہیں دیتی۔ میرے ارادے ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند تھے۔ میرے خیالات میں پہاڑی چشموں کی سی تازگی تھی۔ میرے نظریات سحرانگیز تھے۔ لوگ کہتے ہیں، تمہیں قدرت نے ایک امتیاز بخشا تھا۔ سوچ میں، سمجھ میں۔ ایک فطری فنکار کی طرح بن مانگے، لوگوں کے حصے کی شمعیں روشن کر دیتے تھے۔ میں تنہائی کے لمحوں کے لہجے کو محسوس کر سکتا تھا۔
لیکن وہ روشنیاں کہاں چلی گئیں جو میرے ذہن سے پھوٹتی تھیں؟
تیرہ مئی 1998
معلوم نہیں آج میں کیسے ٹی وی روم جا پہنچا جہاں واجپائی صاحب ایٹمی دھماکوں کے بعد تقریر کر رہے تھے۔ اس کی تقریر کا ایک ایک لفظ زہر میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کی آواز میں ایک غرورتھا۔ اس کے لہجے میں ایک تمسخر تھا۔ ایک حقارت تھی۔ اس کی تقریر نے میرے اندر ایک آگ لگا دی ہے۔ ایک ہلچل مچا دی ہے۔ میں اپنے ہی اندر سلگ رھا ہوں۔ ایک تڑپ ہے۔ ایک کسک ہے جس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بے چینی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے، تڑپ ہے کہ میں اس کی شدت کونظرانداز نہیں کر پا رھا ہوں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم جواب ضرور دیں گے۔ پاکستان جلد حساب چکا دے گا
بائیس مئی 1998
جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں، شہبات جنم لینے لگے ہیں۔ توہمات نے میرے یقین کی جگہ لینا شروع کر دی ہے۔ بے چینی میں کیسے کیسے خیالات نے میرے گرد ہالے بننا شروع کر دیئے ہیں۔ وسوے ہیں کہ میرا پیچھا چھوڑ نہیں رہے۔ میرا ذہن بھاری بھر کم خیالات سے بوجھل ہورھا ہے۔ میں اندیشوں کے سائے تلے محرومیوں کی فصل تیار کرنے میں محو ہوں۔ کون کہاں جا رھا ہے مجھے کوئی پروا نہیں۔ کالج، کالج کی فضا، دوست، احباب سب کسی مضمہل صبح کی طرح تھکے تھکے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی ہنس رھا ہے یا رو رہا ہے مجھے کوئی خبر نہیں ہے۔ کوئی شادمانی میں گنگنا رھا ہے یاپھر کوئی آنکھوں سے آنسوؤں کی پھیلجڑیاں سجا رھا ہے۔ مجھے کچھ سجائی نہیں دے رھا۔ انتظار میں ہر دن قیامت کا سماں لئے ہوئے ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے وہم کا غار تاریکی میں ڈوبتا جا رھا ہے۔ کمتری کا ایک احساس ہے جو بڑھتا جا رھا ہے۔ میں ہر آنے والے دن کے ساتھ خود کو حقیر سمجھ رھا ہوں۔ میں جو ہمیشہ رفعتوں کو چھونے کی باتیں کرتا تھا کسی گھپ اندھیرے میں گم ہوتا جارھا ہوں۔
چھبیس مئی 1998
زندگی مین یہ وحشت کہاں سے آگئی ہے؟ لوگ زندگی میں کیوں مصروف ہیں؟ انہیں افق پر پھیلی محرومیت کا احساس کیوں نہیں ہورھا؟ یہ اداسی کا غبار انہیں دکھائی کیوں نہیں دے رھا؟ میں کیسے یقین کر لوں کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی معجزہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ فرض کر لینا کتنا مشکل ہے کہ ہم صلاحیت نہیں رکھتے، ہماری کوششیں سب بیکار کی تھیں۔ میرے سب خواب محض خواب تھے۔ کتنا مشکل ہے دل کو سمجھانا۔ احساس کمتری کے اس جذبے سے کیسے جان چھڑا پاؤں گا؟ اپنے حصے میں آئی حقارت کو کیس دھو سکوں گا؟ میں یہ سب کچھ کیسے مان لوں؟ دل چاہ رھا ہے اپنی بے بسی کا ڈھنڈورہ پیٹوں۔ اتنا روؤں کہ اپنے آنسو خشک کر لوں۔ زندگی شائد میرے لئے زندگی نہ رہے۔ لوگ کہتے ہیں زندگی میں کچھ بعید نہیں ہے لیکن میں کوئی انہونی نہیں دیکھ رھا۔ میں تاریکی سے نہیں ڈرتا میں موت سے بھی کبھی خوفزدہ نہیں ہوا لیکن میں اس احساس کمتری میں زیادہ دیر جی نہیں سکتا جس میں تیرہ مئی سے مبتلا ہوں۔
اٹھائیس مئی 1998
ٓآج میں سوئمنگ پول میں اکیلا ہی خود کو بہلانے کی کوشش کر رھا تھا جب کسی کی مسرت وشادمانی میں ڈوبی آواز میں نعرہ بلند ہواکہ پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کر دیئے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ صرف حسن اور عشق کی شیرینی کا مزہ دیدنی ہوتا ہے، جو سرشاری، احساس برتری میں ہوتی ہے اس کابھی کوئی جواب نہیں۔ کتنا حسین تصور ہے اور کتنا انوکھا اور عجیب احساس تھا۔ شدت جذبات سے آنسو میری آنکھوں سے نکل آئے۔ دنیا ناچتی ہوئی نظر آرہی تھی اور کائنات کسی جنوں میں رقصاں۔ میرا انگ انگ خوشی سے سرشار تھا۔ میرا رواں رواں کسی نشے میں دھت۔
اٹھائیس مئی کو میں نے اپنے خوابوں کی ایک عمارت قائم کی تھی۔ ایک ایسی عمارت جو ناقابل تسخیر تھی۔ اس شجر کی مانند تھی جس کا سایہ ابدی تھا۔ جس کی بنیاد میں میرے جذبے تھے، امنگیں تھیں۔ جس میں میرے ارادوں کی پختگی شامل تھی جس میں میرے رویوں کی سچائی شامل تھی۔ میں نے اپنی فطرت کی ساری سچائیاں اس عمارت میں لگا دیں تھیں۔
لیکن بیس اگست انیس سو اٹھانوے کو میری اس عمارت پر پہلی ضرب پڑی تھی جب امریکی میزائل پاکستان کی فضا کو عبور کرکے خوست میں گرے تھے۔ ابھی لرزتی اس عمارت کو تھام رھا تھا کہ کارگل سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان سامنے آگیا۔ اور پھر نائن الیون اور ملا عمر کی حکومت کی بے دخلی نے اس کو ہلا کر رکھ دیا۔ میزائل بغداد کی فضائیں چیر رہے تھے اور عمارت میرے خوابوں کی لرز رہی تھی۔ لیکن میں نے کبھی حوصلہ نہیں چھوڑا۔ میں پھر بھی امید کی اس کرن کے ساتھ بندھا رھا جو میں نے اٹھائیس مئی کو دیکھی تھی۔ بارود کی بدبو کابل سے نکل کر میرے ملک کی فضاؤں میں پھیلنے لگی۔ میرے ہی وطن کے گھر گھر سے لاشیں اٹھنے لگیں۔ کہیں بم دھماکوں کے دھویں نے میری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا تو کبھی ڈرون حملوں نے اس کی سالمیت کو سوالیہ نشان بنائے رکھا۔ میری روح جھلسنے لگی۔ میں دیوانہ وار اپنی عمارت کو شکست وریخت سے بچانے کیلئے تگ ودو کرتا رھا۔
وہ لمحے کتنے اذیت ناک تھے جب ساری سرشاری، گرم جوشی اس عمارت کو سنبھالنے میں لگ گئی تھی۔ وہ عمارت، جس میں میری زندگی کا حاصل جمع ہے۔ میں ٹوٹ گیا، میں بکھر چکا رھا ہوں۔ میری زندگی کی کلی مرجھا رہی ہے۔ زندگی بے معنی ہو رہی ہے۔ آج میرے جذبات اور احساسات کا محور صرف اور صرف وہ شکستہ عمارت ہے جس کو میں نے تھام رکھا ہے۔ وہ میرا بھرم ہے اور میں اپنے بھرم کو اتنی آسانی سے ٹوٹنے نہیں دے سکتا۔۔۔ ۔
ہاں شائد لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ آگہی کا شعور انسان کو بوڑھا کر دیتا ہے۔ میں تنہا تھا مگر دلیر تھا۔ میں زندگی کی دوڑ میں شریک تھا مگر مستقل مزاج تھا۔ میں خود اعتمادی کی نعمت سے مالا مال تھا۔ میں ساری کائینات کو للکارنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ لیکن حقائق نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔ ماضی کے شعور سے رشتہ توڑنے کی میری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کوئی امنگ کوئی ترنگ میرے پاس زیادہ دیر ٹھہرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ میں ذہنی اور قلبی طور پر منتشر ہوچکا ہوں۔۔
آج پھر اٹھائیس مئی ہے۔ مجھے ایسی بانہوں کی تلاش ہے جن میں آغوش مادر کی تسکین ہو۔ جسے میں اپنے دکھوں میں شریک کر سکوں۔ جو آگے بھر کر میری اس عمارت کو مجھے سے تھام لے اور میرے کان میں دھیرے سے کہے۔ بہت تھک گئے ہو کچھ دیر آرام کر لو۔ اور میں ان بانہوں سے لپٹ کر زاروقطار رو دوں۔ ایک بار اپنےدل کی بھراس نکال لوں۔