Friday, 28 June 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Diary Ka Aik Waraq

Diary Ka Aik Waraq

ڈائری کا ایک ورق

چودہ سال پہلے لکھی ڈائری کا ایک ورق جس کا آخری جملہ آپکو ساری مایوسیوں اور بے یقینی سے نکال دے گا۔۔

نئے سال کا پہلا دن ہے۔ نئی روشنیوں، نئی تمناؤں، اور خواہشوں کے ساتھ نئے سال کا سورج دھند کی اوٹ میں چھپا رہا اور اس کی کرنیں زمین کے باسیوں تک پہنچنے کی سعی کرتی رہیں اوراسی آنکھ مچولی میں دن بیت گیا۔

کل جب تک دو ہزار دس کا سورج ڈوب گیا، میں اپنے پس منظر میں وسیع کینوس سنبھالے، نئے سال سے کچھ امیدیں باندھنے کی کا ارادہ رکھتا تھا مگر منٹو کے نئے آئین کی مانند کوئی روشنی نظر نہ آئی۔ لیکن رات میں جب سرد دھندلکوں میں میں دیر تک سوچوں کے پر پیچ رستوں پر سرگرداں رہا تو صبح کو میری رائے رات سے مختلف تھی۔۔

نئے سال میں کیا ہوگا؟ شائد وہی ہوگا جو ہر سال ہوتا چلا آیا ہے؟ نیا کیلنڈر اور نئے سال کی نئی تاریخ؟ کیا پھر گھنٹے دنوں میں اور دن مہینوں میں اور مہینے پھر سے نئے سال مں ڈھل جائیں گے؟

دریا جب اپنے بہاؤ میں اپنے حصار توڑتے ہیں تو جہاں بے شمار بستیاں برباد ہوتیں ہیں وہاں پر بے شمار زرخیزی بھی لاتے ہیں۔ میناروں کی بنیادوں میں مزدور کا پسینہ بہتا ہے تو وہ بلندیاں دیکھتا ہے۔۔ قطرہ اپنی انا کو ختم کرکے گوھر میں ڈھلتا ہے۔ کندن آگ کی تپش پا کر سونے سے ڈھلتا ہے۔

ہاں میں بہت پر امید ہوں۔ آنے والے سال کے نئے دنوں کی سواگت کیلئے بہت بے چین ہوں۔۔ بہت سی بستیوں نے محلات کیلئے اپنے وجود کو زمین سے صاف کیا ہے۔ بہت سا خون ہے جو جو مٹی میں مل کر نئی عمارتیں کھڑی کرنے کیلئے بے چین ہے۔ میں نئے سال کی نئی امیدوں کے تعاقب میں ہوں۔ جنگلوں کو آگ نے راکھ بنایا، اب یہی راکھ زندگی میں ڈھلے گی۔ نیا گلستان آباد کرنے کیلئے۔ وہ گھر جو جل گئے تھے، اب وہ پھر سے آباد ہونگے۔ میری نظر لہو کے ان قطروں پر ہے جونئی روحوں کو جنم دیں گے۔

مجھے یقیں ہے، آنے والا سال کائنات کی ہر نعمت لئے چشم راہ ہوگا۔ لذتِ آفرینی ہوگی، جو روحوں کی کثافت دھو ڈالے گی۔ مجھے یقین ہے نئے سال کا شعور پچھلے سال کے شعور سے بہتر ہوگا۔ میرے گمان حقیقت پائیں گے، میرے خواب زندگی میں ڈھلیں گے۔ میری ساری خواہشات میرے ہاتھ میں ہونگی۔۔

لیکن میں اتنا پرامید کیوں ہوں؟ میرا تصور اتنا اثر انگیز کیوں ہے؟ میرے خواب اتنے قابلِ رشک کیوں ہیں؟ ہاں یہ حسرتیں ہیں میری، جو برس ہا برس محنتوں سے پائیں ہیں۔ میری مضطربانہ کیفیت جو شائد میرا مقدر ہے، نے مجھے زندگی کی شعریت سے روشناس کرایا ہے۔ مجھے رموزِ حیات سے آگاہ کیا ہے۔ میری روح کی تشنگی نے مجھے امید سے سرشار کیا ہے۔ میں خواب اور حقیقت کی معنویت سے باخبر ہوگیا ہوں۔

مجھے گاڑی کا ایک پرزہ بننا ہے جس نے گاڑی کو چلانا ہے۔ گاڑی کھڑی ہے چل رہی مجھے اس سے سروکار نہیں۔ مجھے سٹیرنگ پر نہیں بیٹھنا۔ مجھے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔۔

Check Also

Fatima Al Bernawi

By Mansoor Nadeem