Billu Ki Yaad Mein
بِلُّو کی یاد میں
زبردستی مرغی کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں ڈالے گئے۔ لیکن ہاضمہ برداشت نہ کرسکا۔۔ خود سے کچھ کھانا بھی اس کیلئے ممکن نہ تھا۔۔ پھر طے پایا کہ کلیجی زود ہضم ہوتی ہے اس کا استعمال کرتے ہیں اور یہ تجربہ کامیاب رھا۔ دو تین بار زبردستی خوراک اس کے اندر گئی تو اس نے ناصرف انکھیں کھول دیں بلکہ جسم کو بھی حرکت دینا شروع کردیا۔۔
وحید میرے کلینک پر کام کرتا ہے۔۔ محنتی ہے۔ سمجھدار بھی۔۔ کافی خوب بناتا ہے لیکن جو چیز اس کی شخصیت کو ممتاز بناتی ہے وہ اسکی قدرتی حیات میں غیر معمولی دلچسپی ہے۔ وہ حشرات ہوں یا پھر چرند پرند۔۔ یا پھر پالتو جانور۔۔ مچھلی کا شکار اس کا جنون ہے۔۔ مشاہدہ اس قدر گہرا کہ گھنے درخت پر بیٹھی چڑیا کو دور سے تاڑ لیتا ہے۔۔ پرندوں کے بارے اس کی ابزرویشن ایسی کہ نر اور مادہ پرندے کے درمیان فرق بتادیتا ہے۔ کان ایسے تیز کہ ان کی بولی پہچان لیتا ہے۔۔
اس دن جب گرمیوں کی پہلی آندھی آئی تو اسے ایک الو کہیں سے گرتا پڑتا ملا۔ لیکن یہ الو نہیں، الو کا پٹھا تھا۔۔ جس کے ابھی پر بھی پوری طرح سے نہیں نکلے تھے۔۔ بھوک سے نڈھال، کچھ گھونسلے سے بچھڑ کر خوف زدہ۔۔ الو کے پٹھے کی معصومیت پر دل کچھ ایسا گریفتہ ہوا کہ اس کو گود لینے کافیصلہ کرلیا۔۔ اور وحید کو اس کی آیا مقرر کردیا گیا۔
دو دن میں وہ ناصرف ہشاش بشاش ہوچکا تھا بلکہ اپنی شرارتوں کا آغاز بھی کرچکا تھا۔۔ جس پر نام کے خانے میں بِلُّو لکھ کر باقائدہ اپنی فرزندگی میں لے لیا گیا۔۔
چند ہی دن میں بِلو ایک فیملی ممبر بن چکا تھا۔۔ جس نے نا صرف اڑان بھرنا شروع کردی بلکہ انگلی پر بیٹھ کر اپنا رقص بھی دکھانا شروع کردیا۔۔ محبت سیکھنے سے نہیں آتی۔ نہ تجربہ درکار ہوتا ہے۔ محبت تو بس ایک ذاتی جذبے کا نام ہے جو بن بولے، بن سمجھے اپنا رستہ بنا لیتا ہے۔ اور یہ جذبہ بِلو تک رسائی حاصل کرچکا تھا۔۔
جب کائنات کی سب بہاریں اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں سما چکی تھیں۔ تب محبت بکھیرتی اس کی ادائوں کی قندیل کچھ پھرپھڑانے لگی۔۔ خوشی کی رمق پھوٹتی، پھر بجھنا شروع ہوجاتی۔ بِلُّو کچھ چڑچڑا رہنے لگ گیا۔ کھانے میں کچھ دیر ہوجاتی تو ضد کرنا شروع کردیتا۔۔ کاٹنے کو دوڑتا۔۔ پنڈ کے سیانوں نے بتایا کہ بِلو جوان ہوگیا ہے۔ اس کیلئے کوئی "الّٰی" ڈھونڈی جائے۔۔ جس کے بعد ایک عدد خاندانی گھرانے کی تلاش شروع کردی گئی۔۔ ایک وچولن سے بھی بات کی گئی۔۔ لیکن نفسا نفسی کے اس دور میں ایک یتیم لاوارث الو کو کون اپنی "الّی" دیتا۔۔ کہیں سے بھی مثبت اشارہ نہ ملا۔۔ دن بدن بِلو نے کھانا پینا کم کردیا۔۔ اس کی شرارتیں بھی مانند پڑنا شروع ہوگئیں۔۔
ایسے میں ایک روز خبر ملی کی شہر کے پاس الووں کی ایک بستی ہے۔ بحریہ ٹائون جیسی سہولتوں سے مزین تو نہیں لیکن رہنے کیلئے اقبال ٹائون سے کم۔ بھی نہیں۔۔ طے یہ پایا کہ اس کو ادھر لیجا کر چھوڑ دیتے ہیں۔۔ اور بِلّو کسی "الّی" سے انڈرسٹینڈنگ بنا کر کورٹ میرج کرلے۔۔
ایک شام بڑی دھوم دھام سے مستنصر حسین تارڑ کی کتاب الُّو ہمارے بھائی ہیں کے سائے میں کلینک سے رخصت کیا گیا۔ رخصتی کے موقع پر تاجے کے سموسوں اور منیرے کی جلیبیوں سے ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔۔ لیکن اگلے دن وحید کندھے پر بٹھائے اسے لیکر واپس آگیا۔۔ پتا چلا جب اسے الووں کی بستی چھوڑا گیا تو بِلو نے ایک پرجوش اڑان بھری۔۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد پریشان حال واپس لوٹ آیا۔۔
ماہر الووات ملک شہباز صاحب نے مشورہ دیا کہ کم عمری کی شادی مزید مسائل پیدا کردے گی۔۔ پہلے اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دیں۔۔ کچھ دنیا کے رنگ ڈھنگ سیکھنے کا موقع دیں۔ جس پر بِلو کیلئے کلینک کے چھت پر جوڈو اور تائییکوانڈو کے کورسز ترتیب دیئے گے۔۔
دو ہفتے کی سخت تربیت کے دوران توانائیاں استعمال ہونا شروع ہوئیں تو ناصرف بَلُّو کی آنکھوں کی شرارت واپس لوٹ آئی بلکہ اس نے پھر سے اپنی اٹھیکیلیاں شروع کردیں۔۔ صحت بھی کافی اچھی ہوگئی۔۔ کورس کے اختتام پر جب اس نے اپنی خوراک تلاش کرکے خود کو شادی کیلئے اہل ثابت کردیا تو دوبارہ اسے مشن پر اقبال ٹائون ڈراپ کیا گیا۔۔ بِلُّو نے ایک لمبی اڑان بھری اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کافی دیر تک اس کا انتظار کیا گیا۔ لیکن وہ لوٹ کر واپس نہ آیا۔۔
سنا ہے اجکل برگد کے ایک پرانے پیڑ کی کھوہ میں اپارٹمنٹ الاٹ کروا کر اپنی نئی نویلی دلہن کی انکھوں میں جھانک کر جذبات کی قندلیں روشن کررہا ہے
۔۔
بہتی ہوا سا تھا وہ
اُڑتی پتنگ سا تھا وہ
کہاں گیا اُسے ڈھونڈو
کہاں سے آیا تھا وہ
چھو کے ہمارے دل کو
کہاں گیا اسے ڈھونڈو