Akhri Khat
آخری خط
میں نے بارھا لکھنے کیلئے قلم اٹھایا لیکن جب بھی لکھنے بیٹھتا تھا تو لگتا ہے خیالات بکھر گئے ہیں لفظ کھو گئے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے پی ٹی آئی کی حمائیت میں بیان دینے کے بعد بندہ گم ہوجاتا ہے۔۔
محبت توحید مانگتی ہے۔ لیکن تم تو محبت کے معاملے میں بریلویوں سے بھی آگے نکل گئی۔ جس انباکس سے بھی جواب ملا اس سے مدد مانگ لی۔ اپنے دکھڑے کھول کر رکھ دیئے۔ کسی نے تعویذ کی بات کی تو کسی نے سائیکٹرسٹ کا مشورہ دیا۔ کسی نے شادی کا کہا تو کسی نے افیم شروع کرنے کا مشورہ دیا۔۔
میرے پاس لفظوں کا مرہم تھا۔ میں اس مرہم سے تمہارے غموں کا مداوہ کرنا چاہتا تھا لیکن تمہاری محبت میں شرک کی شہرت سلطنت انباکسیہ میں یوں پھیل چکی تھی جیسے شعیب ثانیہ کی شادی کی خبر۔
لوگوں کی نگاہیں بار بار میری طرف اٹھ رہی تھیں۔ میرے پاس ڈیانا والے ڈاکٹر حسنات کے ماموں جیسا بھی کوئی نہیں تھا جو میری رہنمائی کرتا۔ اس لئے میرے پاس خاموشی کے سوا کوئی حل نہ تھا۔
توقع تھی کوئی محبت کی بخاری کا باب کھولو گے کوئی عشق کی مسلم کا حوالہ دو گے۔ چلو کوئی محبت میں فنا فی اللہ کے قصے ہی سنا کر میرا دل جیتنے کی کوشش کرتی۔ بہانے ڈھونڈے بھی تو مزاروں کے بابوں کے خوابوں کو بنیاد بنا کر۔ گیارھویں شریف کی فضلیت والی کتابوں سے تراشے نکال کر۔
تم تو کہتی تھیں تمہاری املا کی غلطیاں متنجن میں بوٹی کی طرح لگتی ہیں اور تمہاری غلط گرائمر متنجن کے اندر سے دانتوں تلے آئے ایرانی بادموں کی گریاں محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کسی نے کابلی پلائو کھلا کر محبت میں توحید کی اہمیت کی طرح میری اردو بارے بھی کنفیوز کر دیا ہے۔
دیکھو میری سابقہ جان۔! میرے دل میں تمہاری جگہ آج بھی وہی ہے جو شادی کے ہر دو سال بعد کسی مرد کے دل میں خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر بنتی ہے لیکن میرے اندر کا وھابی محبت میں تیرے شرک کی وجہ سے تجھ سے دور ہوتا چلا گیا۔
تمہاری اور میری راہیں بالکل ایسے ہی جدا ہیں جیسے بارہ ربیع الاول کے موقع پر وہابیوں اور بریلیویوں کے درمیان جشن ولادت منانے کے فیصلے پر ہوجاتی ہیں۔ ہمارے درمیان فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں جتنے مرزا جہلمی اور اہلحدیثوں کے درمیان۔ اسلئے اب تو مجھے بھول جیسے ایسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اسحاق ڈار کے کیس بھول گئی جیسے شریف فیملی کے غیر قانونی اثاثہ جات یاد نہ رہے۔۔
فقط تمہارا