Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. The Wide Wide Sea

The Wide Wide Sea

دا وائیڈ وائیڈ سی

ہیمپٹن سائیڈز امریکا کے تاریخ داں اور صحافی ہیں۔ میں نے تاریخ داں پہلے لکھا کیونکہ وہی ان کا اختصاص ہے۔ وہ اسی شعبے کی صحافت کرتے ہیں اور تاریخ سے متعلق کئی دلچسپ کتابیں لکھ چکے ہیں جن پر دستاویزی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ گزشتہ سال ان کی کتاب دا وائیڈ وائیڈ سی شائع ہوئی جو کیپٹن جیمز کک کے آخری سفر پر ہے۔ کل شام شروع کی اور ختم کرکے ہی دم لیا۔ اب اسکول میں نیند سے بے حال بیٹھا ہوں۔

کیپٹن جیمز کک، آپ جانتے ہوں گے کہ برطانیہ کے کولمبس تھے۔ لیکن ان کا درجہ اس لحاظ سے بڑا ہے کہ وہ دانشور تھے، اینتھروپولوجسٹ تھے۔ جن جزیروں کو دریافت کیا، ان کی اقدار اور معاشرت کا احترام کیا۔ انگلینڈ کے جھنڈے گاڑنے اور مقامی لوگوں کو غلام بنانے کے بجائے دنیا کو کھوجنے اور نقشے بنانے پر توجہ رکھی۔ وہ اولین یورپیوں میں سے تھے جو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر ہوائی پہنچے۔ تیسرے سفر پر بدقسمتی سے ایک غلط فہمی کی بنا پر انھیں ہوائی میں مقامی جنگجووں نے قتل کیا۔ ان کی یادگار وہاں موجود ہے۔

اس کتاب میں ایک نوجوان مائی کا ذکر ہے جو پہلا پیسیفک آئی لینڈر یعنی بحرالکلاہل کے جزائر سے تعلق رکھنے والا پہلا شخص تھا جو برطانیہ پہنچا اور دوسرا، جس نے یورپ دیکھا۔ یہ اکتوبر 1774 کی بات ہے۔ اس وقت اس کی عمر بائیس تئیس سال ہوگی۔

مائی کا باپ پولی نیشیا کے جزیرے رائیاٹی کا زمیندار تھا۔ وہ کسی دشمن جزیرے کے جنگجووں کے ہاتھوں مارا گیا اور ٹین ایجر مائی کو جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس کی زندگی میں کئی ایڈونچر آئے۔ کبھی یورپیوں سے لڑائی میں زخمی ہوا۔ کبھی دشمن قبیلے نے پکڑ کر تشدد کیا۔ کئی بار اس کی ملاقات برطانوی مہم جووں سے ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود ٹوبیاس فرنو کے جہاز پر چڑھ کر برطانیہ جا پہنچا۔ اتفاق سے اس جہاز کا نام ہی ایڈونچر تھا۔

لندن میں مائی کی ملاقاتیں ان لوگوں سے ہوئیں جن سے وہ پہلے اپنے جزائر میں مل چکا تھا۔ ان لوگوں نے اسے برطانیہ کی اشرافیہ سے ملوایا۔ وہ دعوتوں میں مدعو کیا جانے لگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بذلہ سنج تھا اور جملے بازی کرتا تھا۔ خوش شکل اور اچھے اخلاق کی وجہ سے ہردلعزیز ہوگیا۔ اسے بادشاہ سے بھی ملوایا گیا۔ وکی پیڈیا پر لکھا ہے کہ اس نے اپنی منفرد کمان بادشاہ کو پیش کی اور آداب کے خلاف اس سے ہاتھ ملایا۔ بادشاہ نے برا نہیں مانا۔ مائی نے اسے ہائی ڈو، کنگ ٹوش کہہ کر مخاطب کیا۔ خیال ہے کہ اس نے کنگ جارج کہنے کی کوشش کی لیکن اس کے منہ سے کنگ ٹوش نکلا۔

برطانیہ میں قیام کے دوران کئی مصوروں نے مائی کی تصاویر بنائیں۔ ان میں اسکیج اور آئل پینٹنگ شامل ہیں۔ اس پر ایک ڈراما بھی لکھا گیا جو لندن میں اسٹیج کیا گیا۔

ہیمپٹن سائیڈز کی کتاب جیمز کک کے سفر پر ہے اور اس میں مائی کا ذکر مختصر ہے لیکن مجھے اس میں دلچسپی محسوس ہوئی اس لیے وکی پیڈیا اور اسمتھ سونین کی ویب سائٹ پر اس کے بارے میں پڑھا۔ کتاب میں یہ لکھا ہے کہ جیمز کک اپنے تیسرے سفر پر نکلے تو اسے گھر پہنچانے کے لیے ساتھ لے لیا۔ 1777 میں اسے اتار کے چھوڑا نہیں بلکہ یورپی طرز کا ایک مکان بناکر دیا، فرنیچر فراہم کیا اور دوسری اشیا کے علاوہ گن پاوڈر بھی دیا۔

جیمز کک کو اسی سفر میں جزائر ہوائی میں قتل کردیا گیا تو ان کے ذریعے مائی کی مزید تفصیلات نہیں مل سکیں۔ لیکن 1789 میں کیپٹن بلائی نے وہاں کا سفر کیا تو پتا چلا، جیمز کک کے جانے کے دو سال بعد مائی کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت اس کی عمر تیس سال سے کم تھی۔ اس دوران اس نے کوئی لڑائی بھی لڑی اور شاید گن پاوڈر کے استعمال کی وجہ سے جیت گیا۔ لیکن پھر کسی وبائی مرض میں مبتلا ہوکر چل بسا۔

Check Also

Apni Izzat Apne Hath

By Rauf Klasra