The Story Of Civilization
دی سٹوری آف سویلائزیشن
میں یونیورسٹی میں جنرل ہسٹری کا طالب علم رہا ہوں اور اب امریکا کے ایک ہائی اسکول میں ادب کے ساتھ تاریخ بھی پڑھاتا ہوں۔ یہاں نویں تا بارہویں جماعت قبل مسیح سے گزشتہ امریکی انتخابات تک ساری تاریخ کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں سال کی تاریخ اس مدت میں پڑھنا اور پڑھانا آسان کام نہیں۔ لیکن میں پہلے ہی سال اپنا کورس تشکیل دینے میں کامیاب رہا کیونکہ میں نے ول ڈرینٹ کی ہسٹری آف سولائزیشن سے مدد لی۔
ولیم جیمز ڈرینٹ، جن کا نام اردو میں ول ڈیورانٹ لکھا جاتا ہے، کو طویل عمر ملی، یعنی 96 سال اور انھوں نے اس کا بھرپور استعمال کیا۔ فلسفی اور تاریخ داں تھے۔ 1917 میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد چھ عشروں تک مسلسل تحقیقی کام کرتے رہے اور درجنوں کتابیں خود لکھیں یا قلمی تعاون کیا۔ سب سے بڑا کارنامہ دا اسٹوری آف سویلائزیشن تھا جو پورے 40 سال میں مکمل ہوا۔ اس کام میں ان کی اہلیہ نے بھی ان کی مدد کی۔ وہ اسے پانچ جلدوں میں سمیٹنا چاہتے تھے لیکن انجام کار گیارہ جلدیں بنیں۔
ول ڈرینٹ کے کام کی ویسی ہی اہمیت ہے، جیسی اسٹیفن ہاکنگ کے کام کی۔ یعنی انھوں نے ایک مشکل موضوع کو عام لوگوں کے لیے آسان بنایا۔ یونیورسٹی کا طالب علم یونان، روم اور نشاط ثانیہ کی گاڑھی تاریخ پڑھ لیتا ہے لیکن عام آدمی کے لیے دلچسپی کیسے پیدا کی جائے؟ اس کے لیے آسان زبان استعمال کی جاتی ہے۔ قصے سنائے جاتے ہیں۔ دانشورانہ مباحث سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کئی بڑے سرکاری ادارے موجود ہیں۔ اردو سائنس بورڈ، نیشنل بک فاونڈیشن یا اکادمی ادبیات کو ول ڈرینٹ کی سیریز پر توجہ کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایک فرد، یعنی یاسر جواد نے تہذیب کی کہانی کے عنوان سے پوری سیریز کا ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھالیا۔ یاسر صاحب سو سے زیادہ کتابیں ترجمہ کرچکے ہیں۔ وہ آسانی سے یہ کام مکمل کرلیں گے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی پبلشر کی مدد کے بغیر تنہا سب کچھ کررہے ہیں، یعنی ترجمہ، پروف ریڈنگ، سرورق بنوانا، کاغذ خریدنا، چھاپنا اور پھر قارئین تک ترسیل۔ مصنف یا مترجم کے لیے دوسرے کاموں میں سر کھپانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ لکھنے اور ترجمے پر انحصار کرنے والا اگر ایسا نہ کرے تو بھوکا مرجائے گا۔ بیشتر پبلشر ہر پیشہ ور شخص کو پیسے ادا کرتے ہیں، سوائے لکھنے والے کے۔
یاسر صاحب ول ڈرینٹ کی پہلی تین جلدوں کا ترجمہ ہمارا مشرقی ورثہ، قدیم یونان اور روم کا عروج اور مسیحیت کے عنوان سے کرچکے ہیں۔ مزید آٹھ جلدیں عقیدے کا دور، نشاط ثانیہ، اصلاحی تحریک، عقلیت پسندی کا آغاز، شاہ لوئی کا دور، والٹیئر کا زمانہ، روسو اور انقلاب اور نپولین کا عہد کے نام سے ہیں۔ ان میں روسو اور انقلاب کو امریکا میں پلٹزر انعام سے نوازا گیا تھا۔
امریکا یورپ میں یہ عام قاعدہ ہے کہ کتابوں کی پری آرڈر بکنگ کروائی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی کتابوں سے محبت کرنے والوں کو کچھ کتابیں قبل از اشاعت خرید لینی چاہئیں۔ خاص طور پر جب کوئی مصنف اپنی کتاب خود چھاپ رہا ہو۔ مہنگائی کے اس دور میں اپنی جیب سے کتاب چھاپنا کس قدر مشکل کام ہے، پڑھنے والوں کو اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ میں سات ہزار میل دور امریکا سے یاسر صاحب کی کتابوں کی پیشگی قیمت ادا کرتا ہوں اور کورئیر کو پیسے دے کر ان کی کتابیں منگواتا ہوں۔ مجھے یاسر صاحب سے کوئی محبت نہیں۔ یہ کتابوں سے محبت کا تقاضا ہے۔
یاسر صاحب سے اس فون نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: 03008045736