Temperament Ki Kami
ٹیمپرامنٹ کی کمی
امریکا میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا ہے۔ اسکول ٹیچرز کی کلاسوں میں نئے بچے آتے ہیں۔ ان کے ساتھ ڈیٹا بھی آتا ہے۔ یعنی کون کتنے پانی میں ہے۔ لرنرز ڈیٹا کیا ہوتا ہے اور اس کا کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اس کی تربیت ملتی ہے۔ میں ڈیٹا کے علاوہ بھی ہر طالب علم کا ٹیسٹ لیتا ہوں۔ اس سے مجھے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طالب علم کو کتنی توجہ کی ضرورت ہے۔ میں اس کے مطابق اپنے لیسن ڈیزائن کرتا ہوں۔
اسٹریٹیجک کمیونی کیشنز کے ماسٹرز میں بھی یہی کام سیکھا۔ لیکن اس میں لرنرز کے بجائے انڈسٹری ڈیٹا کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ مارکیٹ کے مطابق کمیونی کیشن اسٹریٹیجی بنائی جاتی ہے۔ یہ مارکیٹنگ سائیکولوجی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ معلوم نہیں پاکستان کی ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں اس طرح کام کیا جارہا ہے یا نہیں۔ امریکا میں کیسے کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ آپ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہوجانا چاہیے۔ جیسے آپ کے خیالات ہیں، جیسی آپ کی پسند ہے، ویسا مواد آپ کی نیوزفیڈ میں آجاتا ہے۔
ایک بار وسی بابا نے پوچھا تھا، کیا آپ کو کبھی اندازہ ہوتا ہے کہ کون سی پوسٹ وائرل ہوجائے گی۔ میں نے کہا، ہمیشہ۔ کون سی پوسٹ چلے گی اور کون سی نہیں، مجھے پتا ہوتا ہے۔ بعض اوقات میں اسپیڈ بریکر بھی لگاتا ہوں۔ یعنی ایک پوسٹ زیادہ چل رہی ہو تو کسی اور پوسٹ سے اس کی رفتار سست کردیتا ہوں۔ یہ کوئی انوکھا کام نہیں۔ کمیونی کیشن اسٹریٹیجی میں یہ سکھایا جاتا ہے۔
میں ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر تجربات کررہا ہوں۔ حکومت، اپوزیشن، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، یوتھیے، جماعتیے، دیوبندی، لبیکیے، شیعے، سب کا صبر آزمایا ہے۔ سب کا ڈیٹا خود تیار کیا ہے۔
مختصر تجزیہ یہ ہے کہ مسئلہ پاکستانی ڈی این اے میں ہے۔ صبر، ٹیمپرامنٹ، اسٹیمنا کسی میں نہیں۔ یوتھیے اور پٹواری ایک طرح کے ہیں۔ سنی اور شیعہ بالکل ایک جیسے ہیں۔ پنجابی غیر پنجابی کی سوچ میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔
سگے رشتے دار، پرانے کولیگ، لنگوٹیے یار، ہم نوالہ ہم پیالہ محلے دار، یہ سب اس وقت تک آپ کے طرفدار ہیں جب تک آپ ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ادھر آپ نے اختلاف رائے کیا، ادھر آپ دشمن، کافر، غدار، بدعقیدہ، گستاخ، ایجنٹ، کم علم، کم عقل ثابت ہوگئے۔
قوم میں ٹیمپرامنٹ کیسے پیدا کیا جائے، کیسے بڑھایا جائے؟ یہ رہنماوں کے سوچنے کا کام ہے۔ سمجھ دار لوگ کہتے ہیں کہ نصاب تعلیم بدلنا چاہیے۔ لیکن صرف کتابیں بدلنے سے کیا ہوگا؟ آپ کو اچھے ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ میڈیا کا کردار مثبت ہونا چاہیے۔ مذہب کا زندگی اور معاشرے میں اثر گھٹانا ضروری ہے۔
بعض قومیں غلطیوں سے سیکھتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ارتقا ہوتا ہے۔ بعض قوموں کو سانحات تبدیل کرتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ بتدریج ترقی کا سفر تو خیر کیا ہوتا، قوم کو سانحات بھی نہیں بدل سکے۔