Schizophrenia, Dr John Nash Aur Roanoke
اسکٹزوفرینیا، ڈاکٹر جان ناش اور روئینوک
وہ اس بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا، جس کے سامنے میں موجود ہوں۔ صبح گھر سے نکلتا اور سیٹی بجاتا ہوا علاقے میں گھومتا رہتا۔ اس کا بے تاثر چہرہ اور سوجی ہوئی آنکھیں دیکھنے والوں کو خوفزدہ کرتیں۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا۔ بیوی طلاق دے چکی تھی۔ ملازمت ختم ہوگئی تھی اور وہ قلاش ہوچکا تھا۔ 39 سال کی عمر میں وہ بوڑھا لگنے لگا تھا۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ایم آئی ٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والے ذہین شخص کی زندگی کا یہ مرحلہ افسوس ناک تھا۔
روئینوک ورجینیا کا چھوٹا سا شہر ہے۔ 1967 میں آبادی آج سے بھی کم تھی۔ یہاں اس کی ماں رہتی تھی۔ اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ اس کا بیٹا اسکٹزوفرینیا کا مریض ہے۔ پہلے بیوی اور بعد میں ماں اسے نیوجرسی میں ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کرواچکی تھیں لیکن علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کے بعد وہ ماں کے ساتھ رہنے لگا۔
میں نے سخت سردی کے باوجود کچھ دیر اس سڑک پر چہل قدمی کی۔ فٹ پاتھ کے درخت مرجھائے ہوئے تھے۔ سوکھے پتے دور تک بکھرے ہوئے تھے اور میرے پیروں تلے چرمرا رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر جان ناش کی یاد میں سیٹی بجانے کی کوشش کی تو گرجاگھر کے سامنے کھیلنے والے بچے مجھے گھورنے لگے۔ انھیں ہرگز علم نہیں ہوگا کہ ان کے پڑوس میں کتنا بڑا آدمی رہا کرتا تھا۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ اسکٹزوفرینیا کے مریضوں کو ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں اور ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو حقیقی نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ انھیں حقیقی سمجھتے ہیں اور بعض اوقات ان کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ اس سے کبھی کبھی ان کی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ڈاکٹر ناش کا ایک دوست بنا جس کی ایک کمسن بھانجی بھی تھی۔ ڈاکٹر ناش برسوں ان سے ملتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ وہ ان سے دل کا حال کہتے اور مشورے طلب کرتے۔ ایک دن انھیں احساس ہوا کہ ان کے دوست اور اس کی بھانجی برسوں سے مل رہے ہیں لیکن ان کی عمر اتنی کی اتنی ہے۔ تب انھیں یقین آیا کہ وہ ذہنی مرض کا شکار ہیں۔ انھوں نے سر جھٹکا اور ایک نئی زندگی شروع کی۔ بیماری ختم نہیں ہوئی، دوست نظر آنا بند نہیں ہوا، لیکن وہ جان چکے تھے کہ حقیقت اور خیالی دنیا میں کیا فرق ہے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی نے بھی ان کا بھلا کیا کہ مرض کو حد میں رکھنے والی دوائیں دستیاب ہوگئیں۔
وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ دوبارہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا۔ تحقیقی جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہونے لگے۔ ان کے معاشی نظریات کو عالمی سطح پر مقبولیت ملی۔ روئینوک کے ان مایوس کن دنوں کے 27 سال بعد ڈاکٹر ناش کو معاشیات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
میں نے تین سال پہلے یہیں فیس بک پر ڈاکٹر ناش کا احوال لکھا تھا۔ عام لوگ اب بھی ان کے نام سے واقف نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی زندگی پر بنائی گئی فلم اے بیوٹی فل مائنڈ کو آسکر ایوارڈ ملا تھا۔ رسل کرو نے اس فلم میں ڈاکٹر ناش کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں بیوی انھیں چھوڑ کے نہیں جاتی حالانکہ اصل زندگی میں اس نے 1962 میں انھیں طلاق دے دی تھی۔ نوبیل انعام ملنے کے بعد خاتون واپس آئیں اور دونوں نے دوبارہ شادی کرلی۔ 2015 میں نیوجرسی ٹرن پائیک پر ہونے والے ایک حادثے میں دونوں ہلاک ہوگئے تھے۔ میں جب نیویارک جانے کے لیے اس ہائی وے سے گزرتا ہوں تو ڈاکٹر ناش یاد آتے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق اور بدقسمتی تھی کہ ڈاکٹر ناش کے بیٹے نے انھیں کی طرح پی ایچ ڈی کیا اور اسکٹزوفرینیا میں مبتلا ہوا۔
ہمارے ایک دوست تھے، نعمان بدر۔ ان کا جوانی میں انتقال ہوگیا۔ وہ کئی سال تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے سالانہ مجلے کے ایڈیٹر رہے۔ ایک بار انھوں نے بتایا کہ وہ جب کسی نئے شہر جاتے تو اس کے فرسٹ کلاس کرکٹ گراونڈز ضرور دیکھتے۔
میں جب کسی نئے شہر جاتا ہوں تو معلوم کرتا ہوں، وہاں کون سے بڑے ادیب اور دانشور گزرے ہیں۔ اگر کسی کی یادگار موجود ہو تو وہاں حاضری دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ تہران میں حسینیہ ارشاد کی زیارت کی جہاں علی شریعتی تقاریر کیا کرتے تھے۔ پیرس میں کیفے ڈی فلور [فرانسیسی میں ڈی فلوغ] گیا جہاں سارتر اور پکاسو بیٹھے رہتے تھے۔ برسلز میں کارل مارکس کی قیام گاہ کو سرخ سلام کیا۔ بالٹی مور میں ایڈگر ایلن پو کا گھر بھی دیکھا اور قبر بھی۔ نارتھ کیرولائنا کے شہر گرینزبورو کے دورے کا ایک سبب اس کا او ہنری کی جنم بھومی ہونا تھا۔ فہرست میں اور بھی کئی نام اور مقامات ہیں۔ آج اس میں روئینوک کا نام بھی لکھ لیا۔