Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Nasli Imtiaz Aik Haqeeqat

Nasli Imtiaz Aik Haqeeqat

نسلی امتیاز ایک حقیقت

ذہین افراد اسٹیریوٹائپس کے اور معاملات کو جنزلائز کرنے کے خلاف ہوتے ہیں۔ ایسے افراد فرسودہ خیالات کی نشاندہی کرتے ہیں اور انھیں کی بدولت رویے تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ نئے خیالات پرانے ہو جاتے ہیں اور وہ بھی اسٹیریوٹائپ بننے لگتے ہیں۔

مہذب دنیا کی اخلاقیات کے تحت نسل پرستی جرم ہے اور اس بنیاد پر احساس تفاخر قابل شرم عمل ہے۔ میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ لیکن اس شہ سرخی کے نیچے نسل، ذات یا برادری کی بات کرنے والے کو بھی نسل پرست قرار دے دینا وہی جنرلائزیشن ہے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بات کیا ہے اور اس کا رخ کس جانب ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں جو فیس بک ہمارے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی آپ ہمسائے شاگردوں کا نام بھی لیں تو پابندی لگ جاتی ہے، چاہے آپ ان کی مذمت ہی کیوں نہ کررہے ہوں۔

غلط کیا ہے؟ سماج، سیاست اور معیشت میں ایسا نسلی تعصب جس سے کسی کو نقصان پہنچے۔ لیکن ایسا نسلی امتیاز قابل قبول ہوتا ہے۔ جس میں کسی پسماندہ نسل کو زیادہ مواقع دیے جاتے ہیں۔ عرف عام میں اسے کوٹا سسٹم کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں تو خیر ہے ہی، امریکا جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں بھی برقرار ہے۔ نیٹو امریکیوں یعنی امریکا کے قدیم باشندوں کے علاوہ بھی کئی نسلی اکائیوں کو "نسلی امتیاز" کے طور پر نوازا جاتا ہے۔

بے شک تمام انسان برابر ہیں، یہ ریاست، سیاست اور سماج کا لازمی فیصلہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا اطلاق کیا آپ ہر شعبے پر کریں گے؟ نوم چومسکی اور میرے ہمسائے مسٹر ہیری دونوں کا ایک ووٹ ہے۔ دونوں کو یکساں شہری حقوق حاصل ہیں۔ دونوں کو رہائش، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولتیں حاصل کرنے کے یکساں مواقع دستیاب ہیں۔ لیکن کیا آپ ان دونوں کو ایک مرتبے کا سمجھتے ہیں؟

نوم چومسکی کی مثال کو نسل پر نہ لے جائیں۔ میں اس طرف ابھی آتا ہوں۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ہر شخص اور ہر گروہ کا وزن الگ ہوتا ہے۔ کچھ پیمانوں پر سب کو نہیں تولا جاسکتا۔

ہر زبان میں کچھ محاورے اور ضرب الامثال استعمال کی جاتی ہیں۔ انھیں ماضی کی دانش کا نمونہ سمجھنا چاہیے۔ باپ پر پوت، پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا اور مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے، جیسی مثالیں کسی وجہ سے بنی ہیں۔ یہ ایک دو افراد کے کارناموں پر نہیں، تواتر سے اعمال دیکھنے کے بعد ہی کہی گئی ہوں گی۔

کوفی لا یوفی کا مطلب ہم جانتے ہیں، یعنی کوفیوں میں وفا نہیں ہوتی۔ اسے جنرلائزیشن کی مثال نہیں کہا جاسکتا۔ کوفیوں نے ایک دو بار نہیں، بار بار دھوکے دیے ہیں۔ ان دھوکوں کی وجہ یہ ہے کہ وہ کم ہمت لوگ ہیں۔ حبیب ابن مظاہر جیسے لوگ مثتثنیات میں شمار ہوں گے۔ آج بھی عراقیوں کا یہ حال ہے کہ وہ داعش کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ ایرانی فوج نے ان کی تربیت کی اور خود اگلے محاذ پر لڑائی لڑ کے ان کا خاتمہ کیا۔

امریکا میں سیاہ فام آبادی کو صدیوں غلام رکھا گیا۔ انھیں آزادی حاصل کیے ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں۔ لیکن ان کا غصہ کم نہیں ہوا۔ موجودہ نسل کبھی غلام نہیں رہی، لیکن اس کا رویہ احتجاجی ہے۔ ہر مقامی سیاہ فام شخص آپ کو بلند آواز میں بات کرتا نظر آئے گا۔ معمولی بات پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جائے گا۔ امیر اور مشہور ہو جانے والوں کے لاشعور میں کچھ ایسا ہے جو انھیں غصیلا بناتا ہے۔

آپ محمد علی کلے یا میلکم ایکس کے انٹرویو یوٹیوب پر دیکھیں۔ ان میں صاف احساس تفاخر نظر آتا ہے۔ انھیں اپنے سیاہ فام ہونے پر فخر ہے۔ کیا یہ نسل پرستی ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ اور سفید فام سوپرمیسسٹ تو یہی کہتے ہیں۔

ہندوستان میں دیکھیں۔ انگریزوں نے گورکھا رجمنٹ کیوں بنائی؟ پاکستان کی فوج میں پنجاب کے چند اضلاع سے زیادہ بھرتیاں کیوں کی جاتی ہیں؟ پشتونوں کی دشمنی کیوں مثال ہے؟ ہندو بنیے اور چینی کیوں حساب کتاب میں دوسروں سے بہتر ہیں؟ نسل پرستی کے نعروں کو ذہن سے نکال کر اس بارے میں اسٹڈیز پڑھیں۔ بہت سی ایسی رپورٹس آپ کو مل جائیں گی جن میں کسی خاص نسلی گروہ پر تحقیق کی گئی اور ان میں ایسی خصوصیات کی نشاندہی ہوئی، جو دوسروں سے بہتر، کمتر یا مختلف تھیں۔ انھیں یہ کہہ کر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا کہ سب انسان برابر ہوتے ہیں۔

ساتویں جماعت کی جنرل سائنس میں لکھا ہے کہ ایک ہوتی ہیں ٹریٹس اور ایک ہوتا ہے کچھ اکوائر کرنا۔ یعنی بعض خاصیتیں ہم پیدائشی طور پر پاتے ہیں اور بعض خود حاصل کرتے ہیں۔ میری جلد کا رنگ پیدائشی طور پر گندمی ہے۔ جسے میں بدل نہیں سکتا یعنی یہ نیچرل ٹریٹ ہے۔ البتہ میں نئی زبان سیکھ سکتا ہوں۔ یہ ایکوائر کرنے کی مثال ہے۔ ہر نسل کا ہر شخص جو چاہے ایکوائر کرسکتا ہے، یعنی علم، ہنر اور پیسہ۔ لیکن کچھ چیزیں بدلی نہیں جاسکتیں، مثلا قامت، آنکھوں کا رنگ اور بلڈ گروپ۔

جو چیز ہم آسانی سے بدل سکتے ہیں، وہ ہمارا رویہ ہے اور جو شے ہم آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں، وہ خوشی ہے۔ ہمیں افراد اور گروہوں کے درمیان اختلاف کو سیلی بریٹ کرنا چاہیے۔ میں اسے اختلاف کے بجائے رنگارنگی کہنا چاہوں گا۔ اگر راجپوت دوسروں سے زیادہ بہادر ہوتے ہیں، اگر میمن دوسروں سے اچھے کاروباری ہوتے ہیں، اگر پشتون دوسروں سے زیادہ محنت کرنے والے ہوتے ہیں تو اس پر خوش ہونا چاہیے یا ناراض ہونا ضروری ہے؟ نسلی امتیاز ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور اعتراف ہونا چاہیے۔ البتہ نسلی امتیاز کی بنیاد پر تفریق کرنا اور نقصان پہنچانا انسانیت کے درجے سے کم کا عمل ہے اور اس کی بھی سمجھ ہونی چاہیے۔

آخر میں دوستوں سے ایک سوال کہ سوشل میڈیا پر کوئی راجپوت، آرائیں، میمن یا سید کیسے اپنے نسلی تفاخر کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچاسکتا ہے یا نسلی تعصب کرسکتا ہے؟ کرسکتا ہے تو بتائیں، ورنہ اس حسین دنیا کی رنگارنگی کو سیلی بریٹ کرنا سیکھیں۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra