Cholesterol Report Israeli Khane
کولیسٹرول رپورٹ اور اسرائیلی کھانے
میں اپنی کولیسٹرول رپورٹ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ڈاکٹر نے پوچھا، دانت کیوں نکلے ہوئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ جاوید میانداد کا بہترین اسکور 280 رنز تھا جو انھوں نے آپ کے انڈیا کے خلاف بنایا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا، لیکن کولیسٹول 280 ہونا خطرے کی بات ہے۔ اسے 200 سے کم ہونا چاہیے۔ پاکستان ہندوستان کے مرغن بلکہ سادہ کھانے بھی بند کریں۔ میڈی ٹرینین خوراک لیں کیونکہ وہ صحت کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خوب پیدل چلیں۔
الحمداللہ پورے ایک ہفتے تک ڈاکٹر کے مشورے پر ریلیجسلی عمل کیا۔ کیونکہ اس وزٹ کے دو دن بعد بیت المقدس پہنچ گیا جہاں صبح شام میڈی ٹرینین کھانے کھائے۔ اسرائیل میڈی ٹرینین سی یعنی بحیرہ روم کے ساتھ ہے۔ ہمارا قیام یروشلم کے ورٹ ہوٹل میں تھا جو شہر کے بہترین ہوٹلوں میں سے ایک ہے۔ نئے شہر کے اہم مقامات کے قلب میں واقع ہے۔ پارلیمان، وزیراعظم کا گھر، عجائب گھر، کنونشن سینٹر، سب آس پاس ہیں۔
لیکن ورٹ ہوٹل کی سب سے اچھی خوبی اس کا ناشتہ ہے۔ کئی طرح کی روٹی، کیک، طرح طرح کے پکوان، پانچ سات اقسام کی مچھلی، زیتون، پنیر، دودھ، جوس، کافی، چائے، پھل، اتنا کچھ کہ پیٹ بھر جائے، نیت نہ بھرے۔ میں نے امریکا، یورپ، دبئی اور کئی دوسرے ملکوں کے ہوٹل دیکھے ہیں۔ اتنا بھرپور ناشتہ کہیں اور نہیں ملتا۔
یروشلم کے بعد دو دن تل ابیب میں بھی رہے۔ وہاں پرائما ہوٹل برا نہیں تھا لیکن اس کے کمرے چھوٹے تھے۔ دراصل تل ابیب مہنگا شہر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یروشلم میں مذہبی لوگ رہتے ہیں اور تل ابیب امیروں کا شہر ہے۔ ہر چیز مہنگی ہے۔ ہوٹل بھی مہنگے ہیں۔ یہ بات بھی ہے کہ سمندر کنارے ہے۔ ہمارے ہوٹل سے سمندر چار قدم پر تھا۔ چار قدم محاورتا کہہ دیا لیکن واقعی بس ایک گلی کا فاصلہ تھا۔
ورٹ ہوٹل پہنچ کر سب سے پہلے کس سے ملاقات ہوئی؟ ممتاز شاعر اور صحافی حسن مجتبی سے۔ حسن صاحب نیویارک میں رہتے ہیں، ہمارے دل اور خیالات ملتے ہیں لیکن ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ دسیوں بار واشنگٹن آئے اور میں دسیوں بار نیویارک گیا۔ ہمارے گروپ میں وہی سب سے سئنیر رکن تھے اور انھوں نے یہ کردار نبھایا بھی۔ یہ تو معلوم تھا کہ وہ سندھی ہیں لیکن سندھ کے کتنے سچے بیٹے ہیں، یہ اس دورے میں معلوم ہوا۔ ہر جگہ انھوں نے سندھ کو بار بار یاد کیا اور ہر ملنے والے کو بتایا کہ ان کا تعلق سندھ سے ہے۔ بلکہ انھوں نے اسرائیل میں سندھی یہودی بھی ڈھونڈ نکالے۔
ہفتے کی شام تھکن سوار تھی لیکن الیسا کا پیغام ملا، تیار ہوجائیں، ڈنر پر ایک جگہ جانا ہے۔ چاروناچار کمرے سے نکلنا پڑا۔ لابی میں میزبان اور مہمان موجود تھے۔ یہ قافلہ سگی کی گاڑی میں منزل پر پہنچا جہاں ایک پرانی عمارت کی چھت پر اہتمام تھا۔ یہ پروفیسر نیر بومس کا گھر تھا جو تل ابیب یونیورسٹی میں موشے دایان سینٹر کے ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام دا سیرین وار، بیٹوین جسٹس اینڈ پولیٹیکل ریالٹی [شام کی جنگ، انصاف اور سیاسی حقیقت کے درمیان] ہے۔ اندازہ لگائیں کہ موجودہ صورتحال میں ان کی کتاب کس قدر اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ ان کی نئی کتاب ایکسپیٹنگ ڈیماکریسی ہے۔ انھوں نے اس کی ایک کاپی خاص طور پر مجھے دستخط کرکے دی۔
اس محفل میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ خطے کی صورتحال، غزہ کی جنگ، اسرائیل کے دوسرے ملکوں سے تعلقات، یہودیوں کے خلاف نفرت، ان موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا۔ کھانے کے لیے سب اٹھے تو میں نے ڈاکٹر بومس سے ایک سوال کیا جس کا انھوں نے اس وقت جواب نہیں دیا۔ کھانے کے بعد انھوں نے وہ سوال سب کے سامنے رکھا۔
میں نے پوچھا تھا، اسرائیل ذہین لوگوں کا ملک ہے۔ آپ لوگ ریسرچ، ٹیکنالوجی، عالمی سفارتکاری، معیشت میں اس قدر آگے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آپ فلسطینیوں کے ساتھ امن قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ جنگ میں بچے مررہے ہیں۔ پوری دنیا آپ کو ظالم کہہ رہی ہے۔ اسرائیل امن مذاکرات کیوں نہیں کرتا؟ آپ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے کیوں بیدخل کرنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر بومس نے کہا، جی ہاں دنیا میں یہی پرسیپشن ہے۔ سب یہی سوچتے اور یہی سجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل مذاکرات کا خواہش مند ہے لیکن فلسطینی نہیں مانتے۔ حماس کی مثال آپ کے سامنے ہے جو مذاکرات پر یقین نہیں رکھتی۔ اسرائیل نے دو ریاستی حل قبول کیا ہے۔ ہم غزہ یا مغربی کنارے کو خالی نہیں کروانا چاہتے۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے وجود کو تسلیم نہ کریں، ہم پر حملے کریں، ہمارے بچے اغوا کریں اور ہم امن مذاکرات کے لیے بیٹھ جائیں۔ اس وقت بھی سو سے زیادہ افراد حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیل اس کی شرائط ماننے کو تیار ہے لیکن حماس انھیں رہا نہیں کررہی۔ آپ کے بچے کوئی اغوا کرلے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟