Ummat e Muhammadiya Ki Bakhshish
امت محمدیہ کی بخشش
حضرت اویس قرنی یمن کے ایک گاؤں میں پیدا ہوۓ، جس کا نام قرن تھا۔ آپ کے والد بچپن میں ہی وفات پاگۓ تھے۔ آپ صوفیانہ لباس زیب تن کرتے تھے۔ آپ کوڑے کے ڈھیر سے پھٹے پرانے کپڑوں کے چیتھڑے تلاش کرتے اور ان کو سی کر لباس بنا لیتے تھے۔ اللہ تعالی کے نزدیک آپ کا یہ لباس بہت پسندیدہ تھا۔ حضرت اویس قرنی رسول اللہ ﷺ سے اس قدر محبت کرتے تھے۔
کے جب عتبہ بن ابی وقاص نے رسول اللہ ﷺ کی طرف پتھر پھینکا تو آپ کے دندان مبارک شہید ہوگۓ، جب حضرت اویس کو یہ خبر ملی تو آپ رضی اللہ تعالی نے اپنے دانت توڑ ڈالے۔ آپ کے جسم پر برص کا ایک چھوٹا نشان تھا۔ آپ اللہ کے ہاں بلند مقام و مرتبہ پر فائزہ تھے۔ جس کا ثبوت احادیث مبارکہ سے بھی ملتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
تابعین میں سب سے بہتر ایک شخص ہے۔ جس کا نام اویس ہے، اس کی ایک ضعیفہ ماں ہے۔ اویس کے ہاتھ پر برص کا نشان ہے، تم جب اس سے ملو تو اسے کہنا کہ امت کے حق میں دعاۓ مغفرت کرے۔ حضرت اویس قرنی اپنا زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں گزارتے رسول اللہ جس بات کی تلقین کرتے، آپ اس پر عمل کرتے۔ نماز میں آپ کی یہ کیفیات ہوتیں تھیں کہ پوری پوری رات سجدے اور رکوع میں ہی گزار دیتے اور کئ کئ دن روزے رکھتے۔
راتوں کو قیام کرتے دوسری رات آتی تو فرماتے ھذہ لیلة الرکوع تیسری رات آتی تو فرماتے ھذہ لیلة السجود۔ لوگ آپ سے سوال کرتے تو آپ کہتے لمبی راتیں کہاں ہوتی ہیں؟ کاش ازل سے ابد تک راتیں ہوتی تو میں سجدہ کر کے مناجات کرنے کا مجھے موقع ملتا لیکن اس قدر چھوٹی راتیں ہیں کہ ایک مرتبہ ہی سبحان ربی الاعلی کہتا ہوں تو رات گزر جاتی ہے۔
حضرت اویس قرنی کا پیشہ اور ذریعہ معاش شتربانی تھا اور جو بھی کماتے اپنی والدہ کی ضروریات پوری کرتے۔ رزق حلال کماتے تھے اور حرام سے گریز کرتے تھے۔ روایات میں آتا ہے، اگر کچھ کھانا اور کپڑے کے ٹکڑے وغیرہ بچ جاتے تو خیرات کر دیتے۔ آپ دنیا سے محبت نہیں رکھتے تھے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے دیدار کے لیے تڑپتے تھے۔ رسول اللہ نے صحابہ کرام کو وصیت فرمائی تھی کہ میرا جبہ مبارک میرے اوپس قرنی کے پاس لے جانا۔
اور میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ میری امت کے لیے دعا کریں۔ اسی ضمن میں حضرت عمر اور حضرت علی قرن روانہ ہوۓ اور وہاں کے لوگوں سے حضرت اویس کا پوچھا۔ لوگوں نے کہا ایک دیوانہ سا شخص ہے وادی عرنہ میں شتربانی کرتا ہے۔ یہ سن کر وادی عرنہ پہنچے کیا دیکھتے ہیں۔ حضرت اویس نماز ادا کر رہے ہیں۔ نماز کے بعد صحابہ نے رسول اللہ کا سلام پہنچایا، جوابا وعلیکم السلام کہا۔
جبہ مبارک دیا اور امت محمدیہ کے لیے دعاۓ مغفرت طلب کرنے کا کہا، حضرت اویس نے جبہ مبارک لبوں سے لگا لیا سر سجدے میں جھکا ہوۓ روتے ہوۓ مناجات کی اور کہنے لگے یااللہ، تیرے محبوب کا جبہ مبارک اس وقت تک نا پہنوں گا، جب تک امت محمدیہ بخشی نا جاۓ، تیرے محبوب نے میرے ذمے یہ کام لگایا ہے۔ ندا آئی اتنے ہزار افراد امت محمدیہ میں تمہارے لیے بخش دیے جاۓ۔
حضرت اویس نے کہا میں تو سب کی مغفرت چاہتا ہوں، آواز آئی اتنے ہزار مزید بخش دیے گۓ، پھر آپؓ نے التجا کی آواز آئی امت محمدیہ بخش دی گئ، جتنی تعداد میں بنی ربیعہ اور بنی مضر کی بھیڑ بکریوں کے جسموں کے بال ہیں۔ بشارت ملتے ہیں۔ آپ نے سجدے سے سر اٹھایا جبہ مبارک پہنا اور صحابہ کو آگاہ کیا۔ آپ رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتے تھے۔ آپ کی تاریخ وصال کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کے مزار ایک سے زائد ہیں۔