Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Moqadus Habiba
  4. Mujhe Samjho

Mujhe Samjho

مجھے سمجھو

جب وہ مسکراتا ہے یوں لگتا ہے پوری کائنات جگمگا اٹھی ہے۔ وہ دنیا کے شور سے بے نیاز محبت کی زبان سمجھتا ہے، وہ دنیا کو مختلف زاویے سے دیکھتا ہے، اس کا ایک الگ ہی جہاں ہے، وہ عام نہیں خاص ہے۔ وہ بول نہیں سکتا لیکن محسوس کرتا ہے۔ وہ خود سے ایک جنگ لڑ رہا ہے، وہ بےحس نہیں بےبس ہے۔ اس کی خاموشی ایک طوفان ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے مجھے سمجھو! سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ پھول ہے جو کھلنے کی کوشش کررہا ہے دنیا اسے عیب سمجھتی ہے، وہ گلاب ہے دنیا کے لوگ اسے کانٹا سمجھتے ہیں بلکہ بوجھ نہ وہ عیب والے ہیں نا ہی بےحس نا ہی پتھر بلکہ انمول موتی ہیں۔ ادھر میں آٹزم کا شکار بچوں کی بات کررہی ہوں۔

آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر دراصل بچوں کی ذہنی اور عصبی بیماری کا نام ہے ایوجن بلیولر نے 1911ء میں سب سے پہلے آٹزم کی اصطلاح استعمال کی۔ جسے 1943ء میں ڈاکٹر لیو کانر جو کہ ماہر اطفال تھا اس نے متعارف کروایا۔ 1980ء کے بعد آٹزم کے بچوں کی ذہنی نشوونما کو بہتر کرنے کے لیے طب حوالوں میں شامل کیا گیا۔

1995ء میں برطانیہ کے ماہر نفسیات سائمن بیرن کوہن نے ایک نظریہ پیش کیا جسے "مائنڈ بلائنڈنس تھیوری" بھی کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ آٹزم کے شکار بچے میں احساسات اور ہمدردی کے جذبات کم ہوتے جبکہ یہ انتہائی سسٹمائزر ہوتے ہیں۔ آٹزم کا عالمی دن ہر سال 2 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ آٹزم سوسائٹی آف پاکستان کے مطابق 2020ء سے 2023ء تک 350,000 ہے اور 2024ء سے 2025ء تک ان کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر 100 بچوں میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے۔ (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ) قومی ادارہ صحت کے مطابق آٹزم کا شکار بچے 30٪ بچے بولنے سے قاصر ہیں۔ مغربی ممالک میں امریکہ اور اسلامی ممالک میں قطر میں آٹزم میں مبتلا بچوں کی شرح زیادہ ہے۔ آٹزم کو تشخیص کرنے کی عمر 3 سال ہے۔ آٹزم صرف ایک کمی نہیں ہے بلکہ قدرت کی طرف سے دی گی ذہانت ہے تاریخ میں ایسی مشہور شخصیات ملتی ہیں جو آٹسٹک تھے جن میں آئن اسٹائن، ڈینیل ٹیمیٹ، ٹیمپی گرینڈن وغیرہ شامل ہیں۔ آٹسٹک بچہ کسی ناراضگی، خوشی کو دیر سے محسوس کرتا ہے۔

ڈاکٹر Laurent Mottron جو کہ معروف نیورو سائنسدان تھے انہوں نے یہ انقلابی بات کہی: "آٹسٹک دماغ غیر آٹسٹک دماغ سے مختلف ہے، ناکارہ نہیں "۔

آٹزم مختلف نوعیت کا ہوسکتا ہے جیسے کلاسیکل آٹزم، ایسپرجر سنڈروم، پی ڈی ڈی۔ این او ایس، ریٹ سنڈروم، چائلڈ ڈس انٹیگریٹو ڈس آرڈر۔

آٹسٹک چائلڈ کی مخصوص علامات ہیں یہ بچے سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں مثلاََ باپ جب گھر واپس آئے ایک عام بچہ گرم جوشی سے والد کو ملتا ہے ان کے نام لینے پر ان کے پاس جاتا ہے، ان سے سلام لیتا ہے وغیرہ لیکن آٹسٹ چائلڈ اکیلا رہتا ہے ایک ہی کھلونے کو نارمل طریقے سے نہیں کھیلتا، سارا دن ایک ہی کام کو بار بار دہراتا رہتا ہے جیسے دروازہ کھولنا بند کرنا، ہاتھوں کو ہلانا (hand flapping)، جھولنا، ایک ہی مخصوص کھانا کھانا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نا کرنا، تنہائی کو پسند کرنا، آوازوں پر شدید ردعمل دینا، چلنے کے دوران ایڑھیاں اٹھا کر چلنا سارا وزن پنجوں پر ڈالنا، منہ سے عجیب و غریب سی آوازیں نکالنا، گول گھومتی ہوئی چیزوں کو غور سے دیکھنا یہ پنکھے کو چلتا ہوا مسلسل دیکھتے رہے گے۔

یہ بچے اپنے جذبات، احساسات کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اگر ان کی روز مرہ کی روٹین میں کوئی تبدیلی آجائے گھر کے افراد میں مہمان کا ہی اضافہ ہوجائے یہ چڑنے لگتے ہیں اور کھنچے کھنچے رہتے ہیں ضد کرتے ہیں۔ اس کا باقاعدہ علاج ادویات سے مکمن نہیں البتہ اس کے لیے مختلف تھراپی کی جاتی ہیں جن میں بیہیویرل تھراپی، اسپیچ تھراپی، آکیوپیشنل تھراپی، سینسری انٹیگریشن تھراپی، سوشل اسکلز ٹریننگ، میوزک اور آرٹ تھراپی شامل ہے جس کے ذریعے سے یہ بچے عام بچوں کی طرح زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

اکثر مائیں ڈاکٹر سے شکایت کرتی ہیں کہ ہمارا بچہ سوشل نہیں ہے دوسرے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلتا۔ اگر فون پر کارٹون لگا کر کمرے میں کہیں بھی رکھ دیں گے یہ فوراََ وہاں سے تلاش کرکے دیکھنا شروع ہوجائے گا۔ اس کی وجہ جو بتائی جاتی ہے کہ بچہ کا جو تعلق کارٹون سے ہے وہ لسننگ کا ہے جبکہ ماں باپ اسے بلاتے ہیں ان سے اس بچے کا تعلق ہیئرنگ کا ہوتا ہے۔ لسننگ بچہ دماغ اور کان دونوں سے کرتا ہے بات کو متوجہ ہو کر سنتا ہے اور جس سے کونکشن بن ہو اسے جواب دیتا ہے جبکہ ہیئرنگ کا تعلق صرف سننے سے ہے لیکن توجہ نہیں دیتا اور وہ آٹسٹک ہوتا جاتا ہے۔

والدین اور معاشرہ ان بچوں کو "بدتمیز" اور "پاگل" کا لقب دے دیتے ہیں۔ اسکول میں ایسے بچوں کو دھتکار دیا جاتا ہے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ماں باپ نوکری کرکے اپنے بچے کو آسائش کی زندگی دینے میں اتنا مصروف ہوجاتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کب آٹسٹک ہوگیا ہے اور وہ آسائشیں نہیں بلکہ ماں باپ کی "محبت اور توجہ" کا طلب گار ہوتا ہے۔ وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور علاج معالجہ میں ادھر ادھر بھاگتے ہیں اور بعض کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ آٹسٹک ہے وہ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ نظر لگ گی پاکستانیوں کو نظر بہت جلدی لگتی ہے جب تک نیا جوتا، ہر نئی چیز کو کالے دھاگے میں نہیں لپٹیں گے تب تک تسلی نہیں ہوتی اور بچے کے گلے میں بھی کال تعویذ ڈال دیں گے۔ ایسی صورت میں لاعلاج بچہ والدین پر مکمل انحصار کرنے لگتا ہے اور وہ ان کے لیے "بوجھ" بن جاتا ہے۔

آٹسٹک بچوں کو نارمل زندگی میں لانے کے لیے ڈاکٹرز کارٹون یعنی اسکرین ٹائم کو ختم کرنے کا کہتے ہیں چونکہ بچہ اس کا عادی ہوچکا ہوتا ہے شروعات کے دن میں بچے کی روٹین میں تبدیلی اور رویے میں ناگواری ضروری آئے گی۔ ایسے بچے چونکہ سوشل نہیں ہوتے اور نا بولنے کی وجہ سے انہیں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ نا کہ آٹسٹک ہونے کی وجہ سے انہیں کسی بند کمرے میں قید کر دینا چاہے۔

استاد کی محبت، ڈاکٹرز کی تھراپی، اللہ پر توکل، والدین کی کاوش، معاشرے کا مثبت رویہ، ان کے لیے اسکولز میں"انکلیوسیو کلاس روم " ہونے چاہیے ان سب سے یہ بچے کامیاب اور نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان بچوں کے لیے زندگی ایک مسلسل جنگ ہے یہ بچے خاموش ہیں سمندر کی طرح۔۔ اوپر سے سکوت۔۔ اندر سے دیکھو تو گہرائی۔۔ لیکن ان کے اندر ایک طوفان ہوتا ہے جو وہ بتا نہیں سکتے۔۔ الفاظ سے محروم۔۔ اپنی دھن میں۔۔ اپنی الگ دنیا میں۔۔ انہیں ضرورت ہے سمجھنے کی اور وہ کہتے ہیں مجھے سمجھو!

Check Also

Kalam e Iqbal Ba Khat e Iqbal

By Rao Manzar Hayat