Saturday, 26 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Aaiye Oxford Aur Cambridge Chalte Hain (2)

Aaiye Oxford Aur Cambridge Chalte Hain (2)

آئیے آکسفرڈ اور کیمبرج چلتے ہیں (2)

بلند قامت خوبرو انگریز مرد مجھے نیچے لے گیا۔ یا خدا اندر سے اتنی بڑی دکان، جو نچلی دو منزلوں کے علاوہ اوپر کی تین منزلوں میں بھی تھی۔ میں نے استعجاب ظاہر کیا کہ انٹرنیٹ کے دور میں بھی اتنی بڑی کتابوں کی دکان تو اس نے کہا ہاں ہماری دکان بہت بڑی ہے۔ کتاب نکال کر اس نے مجھے پکڑائی اور کہا کہ یہیں کاؤنٹر پر قیمت چکا دیں۔ لڑکی نے مجھے سے بارہ پاونڈ لے کر ایک پنس واپس کر دیا یعنی اپنا ایک پیسہ۔ کسی کا ایک پیسہ بھی رکھنا ان پر حرام ہے۔

میں جب باہر نکلنے کو تھا تو غور کیا کہ چھتری وہیں کاؤنٹر کے نزدیک دھر کے بھول گیا تھا۔ پھر گیا اور چھتری لے کر لوٹا تو ایلکس نہیں تھا۔ میں باہر نکل کر بھونچکایا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ پیچھے سے ایلیکس کی آواز سنائی دی، " ہے میرزا"۔ جان میں جان آئی۔ ہم پھر چل پڑے اور وہ مجھے آکسفرڈ کے سب سے بڑے کالج "سینٹ کرائسٹ کالج" کے دروازے پر چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے کہ میں ساڑھے تین بجے سٹیشن پہنچوں گا، سٹیڈیم کو چل دیا۔ میں کالج میں داخل ہوگیا۔ اس کا داخل ہونے والا دروازہ خاصا دور تھا جہاں جا کے معلوم ہوا کہ کالج وزیٹرز کے لیے کھلنے میں آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ میں نے ٹکٹ کی قیمت دیکھی 9 پاؤنڈ تو سوچا باہر سے ہی دیکھ لو بھائی، پرانی طرز کی عمارت ہی ہے ناں۔ اندر جا کر کونسی میری نیوٹن سے ملاقات ہو جائے گی۔

احتیاج انسانی تھی۔ پیاس کے باوجود کچھ نہیں پیا جا سکتا تھا۔ میں واپس شہر کو چل دیا کیونکہ وہاں مجھے میکڈونلڈ دکھائی دیا تھا جو دنیا بھر میں صاف جگہ پر کچھ دیے بنا مثانہ خالی کرنے کی جگہ ثابت ہوتی ہے۔ اندر داخل ہوا تھا تو لیویٹری پر لکھا ہوا تھا، "محض گاہکوں کے لیے، مینیجر سے چابی پوچھیے"۔۔ عجیب بات ہے کہ میکڈونلڈ میں بھی ایسا لکھا ہے۔

نکل پڑا کہ کہیں اور دیکھوں تو اتفاق سے آکسفرڈ کی معروف ڈھکی ہوئی مارکیٹ میں داخل ہوگیا۔ تھک بھی چکا تھا۔ ایک بنچ مل گیا۔ اس پر بیٹھ کر ڈرائی فروٹس کا رک سیک میں رکھا پیکٹ نکالا اور فروٹ کھانے شروع کر دیے۔ سامنے سے ایک عرب دکھائی دینے والا نوجوان برآمد ہوا تو اس سے بیت الخلاء کا پوچھا تو اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔ یہ سوچ کر کہ شاید کوئی ریستوران مل جائے میں الٹ جانب چل پڑا اور پھر سے عین میکڈونلڈ کے سامنے جا نکلا۔

سنیکس کی ایک چھوٹی دکان تھی۔ ایک ٹھرکی انگریز موبائل پکڑے سیلز گرل کی تصویر بنانے کو کاؤنٹر پر جھکا ہوا تھا۔ پھر لڑکی نے کوئی سنیکس ہاتھ میں لیا، تھوڑا سا پوز بنایا اور وہ شخص تصویر لے کر شکریہ کہہ کر نکل گیا۔ میں نے بی بی کو جو موٹی سی خوش اخلاق لڑکی تھی کہا کہ کیا تم ماڈل ہو، وہ مسکرا دی۔ میں نے کہا ایک تو یہ بتاؤ کہ سٹیشن کے لیے بس کہاں سے پکڑی جائے، دوسرا یہ کہ ٹوائلٹ کہاں ملے گا۔ بس تو اس نے بتایا کہ بغل کی سڑک سے پکڑی جا سکتی ہے اور ٹوائلٹ سامنے میکڈونلڈ میں۔ میں نے کہا کہ وہاں تو تالا پڑا ہے۔ وہ بولی اوپر چلے جائیے وہاں کھلا ہوگا۔ اس کے کہے پر عمل کیا۔ کچھ دیر اوپر کی منزل پر بیٹھا اور پھر کچھ کھائے پیے بن یہ سوچ کر کہ جب ٹرین میں تھا تو انعام رانا کا فون آیا تھا جس نے کہا تھا کہ چھ بجے لازمی میرے دفتر پہنچیں، کچھ اور لوگ بھی آئیں گے، نکل پڑا تھا۔

رانا نے خاص طور پر ارشد بٹ کا ذکر کیا جو ناروے سے آئے تھے، فیض امن میلے میں میرے ساتھ بیٹھے رہے تھے لیکن گپ شپ نہیں ہو سکی تھی۔ بغل کی سڑک سے بس پکڑی، ایلیکس کو میسیج کیا کہ بھئی میں چلا، خدا حافظ اور سٹیشن پہنچ کے اگلی گاڑی پر سوار ہو کر پیڈنگٹن ریلوے سٹیشن، لندن۔ جہاں سے رانا کی ہدایت کے مطابق سفر کرتا ہوا فارسٹ گیٹ نکلا اور ایک بلیک گرل سے رومفرڈ روڈ پوچھ کر دفتر سے باہر کھڑے موبائل پر مصروف انعام رانا کو واؤ کرکے ڈرایا۔ وہ ڈرنے کی بجائے حیران ہو کر میرے گلے لگ گیا کہ آپ کیسے پہنچ گئے، میرا تو خیال تھا کہ مجھے آپ کو گائیڈ کرنا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ نہ تو پینڈو ہوں اور نہ پنڈ سے آیا ہوں۔ ایڈریس تھا، پہنچ گیا۔ اب ایک تو یہ کہ پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں دوسرے یہ کہ فون مر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ پیٹ کے چوہوں کا انتظام تو کر دیتا ہوں، فون شاید زندہ نہ کیا جا سکے کیونکہ سب کے پاس آئی فون ہیں سیم سنگ کا چارجر نہیں ہوگا۔

تھوڑی دیر بعد تنویر افضال پہنچ گیا جس سے فیس بک کے توسط سے شناسائی تھی۔ فیض میلے کے موقع پر جب وہ ہال سے باہر ٹکٹس کی فروخت پر ڈاکٹر عامر مختار کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ پہلی سرسری ملاقات ہو چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں راشد بٹ بھی مرزا اسلام اور پرویز کے ہمراہ پہنچ گئے تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد سفید داڑھی اور بکھرے ہوئے سفید باوں والے انورسن رائے بھی پہنچ گئے جن کی اہلیہ اور مشہور شاعرہ عذرا عباس پہلے داخل ہوئی تھیں۔

ان کے فوری بعد عاصم علی شاہ، اکرم قائم خانی، عاصم کا بھائی فیصل اور ان کا پاکستان سے آیا کوئی نوجوان رشتہ دار سرکاری اہلکار بھی آن پہنچے تھے۔ کمرہ بند تھا اور سگریٹ نوش زیادہ، بالخصوص عذرا جو باوجود ذیابیطس اور دیگر امراض میں مبتلا ہونے کے پے در پے سگریٹ پیتی ہیں۔ سگریٹ کے دھوئیں سے میں اور اکرم بہت اکتائے ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دروازہ کھلواتے تھے، کبھی سگریٹ محدود کیے جانے کی استدعا کرتے تھے۔

انعام نے عذرا کو اپنی گھومنے والی کرسی پر سرفراز کر دیا تھا جبکہ انور سن رائے میرے ساتھ ہی ایک عام کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔ عذرا کا خیال تھا کہ محفل ادبی ہوگی مگر میں نے یہ کہہ کر ان پر ٹھنڈے پانی کا گھڑا انڈیل دیا کہ سب کے سب سابق سیاسی کارکن ہیں اور یہ آپ کو اکتا دینے والی گفتگو کریں گے۔

پھر گفتگو شروع ہوگئی، بات سماجیات سے چلتی ہوئی سماجی سیاسی رویوں اور بالآخر سیاست تک آئی۔ سبھی بہت سی باتوں پر ہم میں سے بیشتر ہم خیال ہوتے ہوئے بھی مختلف الخیال تھے۔ عذرا بور تو نہیں ہوئیں لیکن گفتگو میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کیا اور چپ رہیں۔ اتنا البتہ ضرور پوچھا کہ ادب سے کس کس کا تعلق ہے۔ سب خاموش تھے، میں نے ہمت کرکے وہ کہہ ہی دیا جو کبھی نہیں کہتا کہ میرا تعلق ہے، شاعری بھی کی ہے، ناول بھی لکھا ہے اور خودنوشت بھی اگرچہ شائع نہیں ہوئے مگر بہت سے بڑھ چکے ہیں۔

یہاں سے معاملہ بڑھ کر مشاعرے تک آ گیا۔ انعام نے عذرا کو صدر محفل قرار دیا اور سب سے پہلے مجھ سے کہا کہ ارشاد کیجیے۔ میں نے جتنی شاعری کی ہے وہ بیشتر نثری اور فلسفیانہ ہے جو یاد نہیں رکھی جا سکتی۔ کتاب تو اپنی کبھی رکھی ہی نہیں چنانچہ 1972 میں کہی دو چھوٹی چھوٹی غزلیں سنائیں۔ عذرا کو بھی پسند آئیں۔ پھر انورسن رائے نے محمود درویش کی چند ترجمہ کردہ نظمیں جنہیں وہ درویش سے اخذ کردہ اپنی نظمیں کہتے ہیں، سنائیں۔ انعام رانا نے بھی ایک نظم سنائی اور پرویز نام کے شریک محفل نے پنجابی نظم۔

بعد میں انورسن رائے نے محمود درویش کی اردو کی گئی نظموں پر مشتمل اپنی کتاب مجھے دی۔ جب ایک اور عرب شاعر ادوینس کی ترجمہ شدہ نظموں کی کتاب دینے کو اس پر لکھنے کے لیے کھولا تو کہہ اٹھے بھئی یہ کتاب میں آپ کو نہیں دے سکتا۔ میں سمجھا کہ فوری طور پر کسی اور کو دینے کا خیال آ گیا ہے شاید۔ جب میں نے ان کی جانب دیکھا تو بولے کہ جلد کرنے والے سے غلطی ہوگئی۔ جلد میری کتاب کی ہے مگر اندر کسی اور کی کتاب ہے۔ اندر انجم قریشی کی پنجابی نظموں کی کتاب "میں تے املتاس" تھی۔ میں نے انور صاحب سے کہا کہ دیکھ لیں شاید آپ کی بھی کچھ نظمیں ہوں تو دکھاتے ہوئے بولے دیکھو سب پنجابی میں ہیں اور کتاب کے آدھے صفحے یکسر کورے۔ میں نے نکلتے ہوئے انعام کو بتا کر اس کے دفتر میں پڑا ایک انگریزی ناول اٹھا لیا۔

سب کار والے تھے اور مجھے بالکل اور طرف جانا تھا۔ انعام نوبیاہتا ہے شاید اسی لیے چھوڑنے نہیں گیا۔ بولا سامنے سے بس پکڑ لیں سیدھی زیر زمین ریلوے سٹیشن لے جائے گی مگر عاصم نے کہا ہم چھوڑ دیتے ہیں سٹیشن تک۔ راستے میں سڑک مرمت کی وجہ سے ایک راستہ بدلنا پڑا۔ مڑنے والی دوسری سڑک بھی روکی ہوئی تھی چنانچہ میں کار سے اتر کر پیدل سٹیشن پہنچا اور دیر گئے ندیم سعید کے ہاں، جہاں میں مقیم تھا۔

دوسری یعنی لندن میں چوتھی صبح پروگرام کے مطابق مجھے کیمبرج جانا تھا مگر میں ایک روز پہلے کی تھکاوٹ کے سبب جانے سے گریز کر رہا تھا۔ ظاہر ہے مجھے مشورہ تو سیانے ندیم سے ہی کرنا تھا۔ وہ گیارہ سوا گیارہ بجے اٹھ کر میری طرف آیا تھا۔ میرے استفسار بلکہ میرے انکار پر اس نے پہلے تو کہا کہ آپ کی مرضی ہے مگر جب میں نے کہا کہ بھائی مشورہ دو، مرضی کا ذکر مت کرو تو کہنے لگا کیمبرج دیکھ ہی آئیں۔ مجھے آکسفرڈ سے زیادہ اچھی جگہ لگی ہے۔ اس نے ایک بار پھر گوگل سے کیمبرج بارے لنک مجھے بھیج دیا اور سمجھا دیا کہ اس بار ہیکنی سنٹرل سے نہیں بلکہ ہیکنی ڈاؤن جائیں جو بالکل علیحدہ سٹیشن ہے، وہاں سے کیمبرج کے لیے براہ راست ٹرین مل جائے گی۔

ڈھونڈ ڈھانڈ کے مطلوبہ سٹیشن پہنچا۔ ٹکٹ گھر میں موجود سیاہ فام خاتون نے کہا کہ ہمارے ہاں سے صرف ہفتے اتوار کو ہی براہ راست جایا جا سکتا ہے۔ آپ لیورپول سٹریٹ چلے جائیں، وہاں سے کیمبرج کا ٹکٹ لے لیں۔ چاہیں تو میں یہاں سے جاری کر سکتی ہوں۔ میں سینتیس سیڑھیاں چڑھ کر پلیٹ فارم ایک پر گیا۔ ٹرین آنے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے کہ دوسری طرف کے پلیٹ فارم پر موجود ایک ادھیڑ عمر اہلکار نے آواز دے کر کہا کہ ٹرین اس پلیٹ فارم پر آئے گی۔ سینتیس زینے اتر کے دوسرے سینتیس زینے چڑھ کر وہاں پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہاں جانا ہے۔

جب میں نے کیمبرج کا بتایا تو اس نے کہا کہ تین سٹیشن پیچھے جا کر واپس وہی تین سٹیشن آنا عقلمندی نہیں ہوگا۔ پلیٹ فارم چار پر جاؤ اور فلاں سٹیشن پر چلے جاؤ۔ اگلا ہی سٹیش ہے، وہاں سے کیمبرج۔ لو جناب پھر سینتیس زینے نیچے اور سینتیس زینے اوپر جانا پڑ گیا۔ اب جس نام کا سٹیشن اس نے بتایا تھا۔ نقشے میں اس نام کے ساتھ مختلف سابقوں والے دو سٹیشن تھے۔ پھر ندیم کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ میں چیک کرکے فون کرتا ہوں۔ اس نے اس سٹیشن کا نام بتایا۔ قریب ہی بنچ پر بیٹھی عورت نے سمجھایا کہ اگلے سٹیشن پر جا کر ٹرین تبدیل کریں تو تیسرا سٹیشن یہ ہوگا۔ وہاں باہر نکلیں اور کیمبرج کا ٹکٹ لیں۔

خیر ایسے ہی کیا۔ باہر نکل کے دیکھا تو دور ایک چھوٹا سا ٹکٹ گھر تھا۔ جس کی کھڑکی پر جھکی ایک سفید فام خاتون ٹکٹ گھر میں موجود سیاہ فام خاتون سے کسی جگہ کا ٹکٹ خرید رہی تھی۔ اسے فارغ کرنے کے بعد مجھے اندر والی نے بتایا کہ سب سے سستی ٹکٹ والی ٹرین بیس منٹ میں جائے گی، جس کا ٹکٹ میں ابھی نہیں بیچ سکتی۔ میں نے کہا بی بی قیمتیں تو بتا۔ کہنے لگی بیس منٹ بعد والی سترہ پاؤنڈ کی اور دس منٹ بعد والی ساڑھے بائیس پاؤنڈ کی۔ مجھ میں انتظار کا یارا نہیں تھا۔ کہا مہنگی والی ہی دے دو۔

جاری۔۔

Check Also

Aeeni Tarameen Aur Insaf

By Raza Ali Khan