Waseb, Senate Se Soobe Tak
وسیب ، سینٹ سے صوبے تک
وسیب کے ساتھ نا انصافی کی کہانی کو کسی ایک باب میں بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ حقوق کی پامالی، وسائل کی عدم فراہمی اور نامناسب رویے کی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر باب، ہر ورق، ہر پیرا گراف اور ہر لفظ چیخ چیخ کر اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی دوہائی دیتا نظر آتا ہے سینٹ انتخابات اور سینٹ میں نمائندگی کو ہی دیکھ لیں۔ سینٹ ایک ایسا آئینی ادارہ ہے جس میں تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی دے کر چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والے احساس کمتری کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے یعنی سینٹ میں تمام صوبوں سے برابر سنیٹرز اپنے اپنے صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ کبھی دو صوبوں کے باہمی معاملات یا کوئی ایسا قومی مسئلہ جس سے کسی ایک صوبے کے زیادہ مفادات جڑے ہوں تو وہ عددی برتری کی بنیاد پر دوسرے صوبوں کو مات دے کر اپنی اجارہ داری قائم نہ کر سکے یہی وجہ ہے کوئی بھی ترمیم یا بل سینٹ کی منظوری کے بغیر آئینی حیثیت حاصل نہیں کرسکتا۔ مگر اس کے باوجود سینٹ میں بھی وسیب کو ہمیشہ نظر انداز کر کے اس بات کا ثبوت دیا جاتا ہے کہ آئین اگرچہ برابری کا حق دے بھی رہا ہے مگر کوئی بھی جماعت وسیب کو برابری کا یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں گو کہ آئینی طور پر ایسی کوئی قدغن نہیں کہ صوبے سے تعلق رکھنے والے سنیٹر کا تعلق کس علاقے یا کس شہر سے ہونا چاہئے مگر اخلاقی طور پر تو یہ حق بنتا ہے کہ پنجاب کی نصف سے زائد آبادی ہونے کی حیثیت سے وسیب جنوبی پنجاب کو بھی سینٹ میں اپر پنجاب کے برابر نمائندگی دی جانی چاہئے اس سے نہ صرف وسیب کا احساس محرومی ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ سینٹ کے بنیادی مقصد کو بھی ایک نئی زندگی مل سکتی ہے مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہورہا گزشتہ کئی سالوں سے تمام سیاسی جماعتیں وسیب کو دانستہ نظر انداز کر رہی ہیں سینٹ کے حالیہ انتخابات میں بھی یہی ہوا پنجاب میں سینٹ کی گیارہ سیٹوں کے لیے انتخابات ہونا تھے گو کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والے " مک مکا " کے بعد تمام سنیٹرز بلا مقابلہ کامیاب ہوئے جس کے تحت تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے حصے میں پانچ پانچ اور مسّلم لیگ ق کے حصے میں ایک سنیٹر آیا مگر اس سے پہلے سنیٹرز کے لیے تقسیم کئے گئے ٹکٹ اور پھر منتخب کئے گئے سنیٹرز میں وسیب کو یکسر نظر انداز کیا گیا پی ٹی آئی نے وسیب سے صرف ایک سنیٹر عون عباس بپی کو ٹکٹ دیا جو کامیاب ہوا جبکہ نواز لیگ نے حسب روایت وسیب میں ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا ویسے تو یہ تمام جماعتیں وفاق کی علمبردار ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں مگر انھوں نے پاکستان اور پنجاب کی ایک بڑی اکائی کو نظرانداز کر کے حق نمائندگی سے محروم کر دیا کسی نے بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ وسیب کو جنرل، ٹیکنوکریٹ یا خواتین کی نشستوں پر نمائندگی کا حق دیا جائے۔
اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وسیب کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے میں کوئی ایک جماعت ملوث نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک سوچ کار فرما ہے جو ہر جماعت اور ہر ادارے میں پائی جاتی ہے اور ہر دور میں اپنے روایتی ہتھکنڈے استمال کر کے وسیب کی محرومیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے مگر وسیب نے تحریک انصاف سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کر لیں تھیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف روایتی سیاست کو دفن کرنے کے بڑے بڑے دعوے کر کے اقتدار میں آئی تھی مگر رفتہ رفتہ اس جماعت کو بھی روایت پرستی کی سیاست کا کچھ ایسا رنگ چڑھا ہے کہ اب اسے اپنی سیاست کی کامیابی قرار دیتی نظر آتی ہے جس کی ایک جھلک جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں واضح طور پر کہا تھا کہ کامیاب ہوکر 100 دنوں میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے مگر پھر سو دنوں کے کئی سو دن گزر جانے کے بعد انھوں نے جنوبی پنجاب صوبے کو سکُیڑ کر صوبائی سول سیکرٹریٹ تک محدود کر دیا اور پورے وسیب کو ایک طویل عرصہ تک سیکرٹریٹ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر یہ خواب دکھائے گئے کہ اس سیکرٹریٹ سے وسیب کی محرومیوں کا خاتمہ ہوگا وسائل کی مساوی تقسیم ہوگی مسائل کے حل میں مدد ملے گی وسیب کے حقوق بحال ہونگے مگر اب خبریں آرہی ہیں کہ صوبائی سیکرٹریٹ کی بتی بھی گل ہونے جارہی ہے پچھلے دنوں یہ خبر سامنے آئی کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں منتقل کئے گئے 20 محکموں میں سے 7 محکمے ختم کر کے ان کے سیکرٹریز کے عہدے بھی ختم کر دئے گئے ہیں یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور پھر ایڈشنل چیف سیکرٹری کے تبادلے کے بعد کئی ماہ تک خالی رہنے والی نشست پر نئی تعیناتی کر تو دی گئی ہے مگر صرف تین ماہ کیلئے۔ سیکرٹری اریگیشن پنجاب کے عہدے پر کام کرنے والے سیف انجم کو ایڈشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کے عہدے کا اضافی چارج دیا گیا ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی افسر ایڈشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کے عہدے پر کام کرنے کے لیے تیار نہیں سوال تو یہ ہے کہ جو جماعت جنوبی پنجاب میں بااختیار افسر تعینات کرنے کے لیے تیار نہیں وہ ایک ایک مکمل اور بااختیار صوبہ کیسے دے گی؟
مگر پھر بھی صوبہ تو دینا پڑے گا کیونکہ یہ پورے وسیب کا مطالبہ بھی ہے اور حق بھی۔ حکومت نے سینٹ میں وسیب کو آبادی کی تناسب سے نمائندگی نہیں دی مگر اب یہ تو حکومت کے اختیار میں ہے کہ صوبے سے سیکرٹریٹ تک محدود ہونے والے سیکرٹریٹ کو مزید محدود نہ کرے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں جن سیاسی جماعتوں نے صوبے کے نام پر وسیب کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا انہیں اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑا پاکستان تحریک انصاف کو بھی یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ صوبے کے حوالے سے اس کی غیر سنجیدگی برقرار رہی تو آنے والے الیکشن میں اس کا جواب پوری سنجیدگی کے ساتھ ملے گا۔