Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mazhar Khokhar/
  4. Sab Se Bara Masala

Sab Se Bara Masala

سب سے بڑا مسئلہ

تقرر، تبادلے اور تعیناتیاں کسی بھی ریاست میں معمول کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ کیونکہ جہاں آئین اور قانون کی بالادستی ہو وہاں پورا سسٹم ایک خاص میكنزم کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سرکاری ملازمین کے تقرر و تبادلے اس سسٹم کے تحت بغیر کسی رکاوٹ اور حیل و حجت روبہ عمل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سب کچھ آئین اور قانون کے تحت چل رہا ہوتا ہے تو میرٹ کی بالادستی یقینی ہوتی ہے اور پھر ادارے بھی مستحکم ہوتے ہیں۔

مگر ہمارے ہاں ریاست کس حد تک مضبوط ہے، جمہوریت میں کس حد تک جمہوریت ہے، ادارے کتنے مستحکم ہیں، آئین اور قانون کی بالادستی کہاں تک ہے اور میرٹ کی حقیقت کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ یوں تو پاکستان میں رہنے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ یا پھر اگر آپ سرکاری ملازم ہیں یا آپ کا کوئی رشتہ دار ملازم ہے تو سب لوگ اس بات سے واقف ہیں۔

کہ ملازم کی بھرتی سے لیکر تبادلوں تک سیاستدانوں سے لیکر اعلیٰ آفیسران تک کس طرح ہر کوئی اپنا اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا پورا سیاسی ڈھانچہ تقرریوں اور تبادلوں پر کھڑا ہے۔ ایم پی اے، ایم این اے سے لیکر مشیروں، وزیروں تک اور گورنر، وزرائے اعلیٰ سے لیکر وزیراعظم تک سب بااختیار ہونے کے بعد پہلا اختیار یہی استعمال کرتے ہیں کہ ہر جگہ اپنے من پسند لوگوں کو تعینات کرتے ہیں اور مخالفین کو کالا پانی کے علاقے میں بھیج دیتے ہیں۔

ہمارے ممبران اسمبلی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ لاہور، اسلام آباد میں ان کا سب سے بڑا مسئلہ پٹواری اور تھانیدار کا تبادلہ ہوتا ہے۔ گو کہ ان کے سكیل کم ہیں مگر اختیارات کے حوالے سے یہ دونوں ملازم بہت طاقتور ہیں۔ اس لیے ممبران اسمبلی ان کے ذریعے اپنی طاقت بڑھاتے اور پھر اس طاقت کو مخالفین کے خلاف اور اپنے حامیوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح کسی محکمے میں اگر سیٹیں آ جائیں تو سیاست کا ایک منظم نیٹ ورک متحرک ہو جاتا ہے یعنی ان سیٹوں پر مال بھی بنایا جاتا ہے اور سیاست بھی چمکائی جاتی ہے۔ ہر بندہ اس بات سے واقف ہے جب بھی کسی محکمے میں سیٹیں آتی ہیں اور ٹیسٹ یا انٹرویو کا مرحلہ در پیش ہوتا ہے تو ہر شخص یہی کہتا نظر آتا ہے کہ سیٹیں تو فروخت ہو چکی ہیں۔ معاملات تو طے ہو چکے ہیں عوام کو محض بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔

سرکاری ملازمین ریاستی مشینری کے پرزے ہوتے ہیں جو کہ پوری ریاست کو چلاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازمین میرٹ، اہلیت اور كاركردگی کی بنیاد پر آگے آئیں تو ریاست بہتر انداز میں کام کر سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ رشوت، سفارش اور پسند و ناپسند کے تحت آئیں گے تو ریاست کی کارکردگی کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتی۔

آج ریاست کی زبوں حالی کی ایک وجہ یہی ہے کہ ہمیشہ میرٹ کو پامال کر کے پسند و ناپسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔ درجہ چہارم سے لیکر 22 ویں گریڈ تک ہر سیاستدان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا بندہ تعینات کرے اسی پسند و ناپسند نے ہمیشہ اداروں کو کمزور کیا۔ مگر پاکستان کی تاریخ اس طرح کے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کے نتائج نے ملک سنگین صورتحال سے دو چار کیا۔

آرمی چیف یقیناً بہت بڑا عہدہ ہے۔ طاقت، اختیار اور دفاع کے حوالے سے كلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ لیکن اگر سب کچھ رولز اینڈ لاء کے تحت ہو رہا ہو اور سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتی ہو رہی ہو تو آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کی کارروائی سے بڑھ کر نہیں۔ مگر ماضی کی روایت یہی ہے کہ ہمیشہ پسند و ناپسند کو سامنے رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے آرمی چیف کی تعیناتی کے دوران پچھلے کئی ہفتوں تک ملک ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہا۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ملک کے تمام مسائل ختم ہو گئے ہیں۔ بھوک، غربت بے روزگاری ختم ہوگئی ہے، مہنگائی کا نام و نشان نہیں رہا، ڈالر اوقات میں آ گیا ہے، معیشت تندرست و توانا ہوگئی ہے، عوام خوشحال ہو گئے ہیں بس آرمی چیف کی تعیناتی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر اپنی اپنی پسند کے نام شیئر کئے جا رہے تھے۔ تجزیے اور تبصرے کئے جا رہے تھے۔

بہرحال اچھا ہوا کہ حکومت نے پہلی بار سینئر ترین جرنیل کو آرمی چیف تعینات کر دیا اور صدر مملكت نے بھی فوری طور پر سمری پر دستخط کر دیے جس سے تمام تر افواہیں اور چہ میگوئیاں دم توڑ گئیں۔ کیا ہی بہتر ہو اگر تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم کر کے ہر تین سال بعد پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کا خاتمہ کر لیں تاکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح سینیر جرنیل خود بخود آرمی چیف بن جائے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ذاتی پسند و ناپسند شامل نہ ہو تو کسی بھی ریاست میں تقرریاں اور تبادلے معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔

Check Also

Bani Israel Ka Gumshuda Daswan Qabeela Daryaft

By Wusat Ullah Khan